Jhonpari ki Nafsiyat
جھونپڑی کی نفسیات
July 4, 2024
عقبہ سے فردوس، براستہ اعراف۔۔۔
عقبہ سے فردوس، براستہ اعراف۔۔۔
August 13, 2024

ذاتی سوچ

Zati soch (Photo Credit: https://www.newtraderu.com/)

Zati soch (Photo Credit: https://www.newtraderu.com/)

بچہ پیدا ہوا ، زبردستی اس کا نام رکھ دیا گیا۔

نام اگر محمد رمضان ہے تو ساتھ ہی اس کا مذہب بھی ہم نے طے کر دیا، یہی ہمارے پڑوس میں بچے کے ساتھ بھی ہوا جس کا نام موہن داس رکھا گیا اور پھر ان کے پڑوس میں مائیکل نامی بچے کے ساتھ بھی۔ تینوں 99.9 فیصد اسی مذہب پر قائم رہیں گے، اسی کو دنیا کو سچا ترین مذہب مانیں گے اور اسی کے لیے درجہِ شہادت پر فائز ہونے کو سعادت سمجھیں گے ۔ نہ ان بچوں کو بڑے ہو کر کوئی پوچھتا ہے کہ انھوں نے کون سے مذہب پڑھے اور پھر ان میں سے کس کو بہتر پایا اور اس کو نبھانا ہے یا کسی کو بھی نہیں اپنانا ،مگر یہ تو ان کو مرضی ہو جاتی اور یہ ہمارے ہاں ممکن ہی نہیں اسلئے زبردستی کو نعمت کے خوبصورت لفافے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے ۔

تینوں بچوں کو زبردستی سکول جانا ہے کیونکہ اب والدین کو پچھلی تین چار نسلوں سے تعلیمی اور صنعتی کاروبار چلانے والوں نہ یہی سکھا پڑھا دیا کہ اس کے علاؤہ کوئی اور جگہ نہیں جہاں بچوں کو بھیجا جا سکے۔

پھر زبردستی یہ بچے سائنس یا آرٹس میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کرتے ہیں، والدین اور بچوں کو لگتا ہے سائنس اور آرٹس کے تمام شعبے ملا کر ان کے پاس کافی سارا اختیار ہے مگر ان بیچاروں کو یہ پتہ ہی نہیں لگ پاتا کہ ان سے سینکڑوں دیگر اختیارات چھپا کر انھیں چند اختیار دکھاۓ گۓ ہیں اور وہ فقط انہیں سب مضامین کو ممکن اختیارات تصور کر کے زندگی جیتے ہیں ۔

پھر آتی ہے نوکری جو لفظ نوکر سے نکلی ہے اور نوکر کہتے ہی اس کو ہیں جس کی کوئی اپنی مرضی نہیں ہوتی ۔ مثال لیجیے آپ کے گھر ایک صفائی کرنے والی خاتون آتی ہے، آپ طے کریں گے کس دن کون سا کمرہ یا جگہ صاف کرنی ہے اور کون سی نہیں کرنی اور صفائی کا معیار بھی آپ ہی طے کرتے ہیں کیونکہ آپ کو پسند نہ آئے تو آپ دو بارہ کرواتے ہیں لہذا وہ نوکر ہے اور نوکر کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ۔ تمام وہ بچے بچیاں جو نوکری کرتے ہیں وہ مالک کی مرضی پر چلتے ہیں ، یہاں بھی ان کی کوئی مرضی نہیں ۔

کاروباری افراد سمجھتے ہیں وہ اپنی مرضی کرتے ہیں ، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہر کاروباری شخص اپنے گاہگ کا غلام ہے اور اسی کی مرضی کا پابند ہے ۔ ہوٹل کا مالک گاہگ کی مرضی اور اسکی پسند کے ذائقے کا پابند ہے ، تبھی ہوٹل کامیاب ہوتا ہے ، اپنی گاڑی کراۓ پر چلانے والا گاہگ کی بتائی ہوئی سمت اور رفتار کا پابند ہوتا ہے اور جہاں بھی ہم پابند ہوتے ہیں وہاں ہماری کوئی مرضی نہیں ہوتی ۔

جن لڑکیوں کی پڑھائی کے فورآ بعد شادی کر دی جاتی ہے وہ سسرال، خاوند، معاشرے یا رواج کی پابند ہوتی ہیں۔ جب تک وہ ان سب کو سمجھ کے قابو کرنے لگتی ہیں تب تک وہ بچوں کی مرضی پوری کرنے میں لگ جاتی ہیں۔

والدین کے لیے بچوں کی پڑھائی، نوکری، شادی، گھر بنانا اور نجانے کیا کیا معاشرتی اور مذہبی مجبوریاں، جنھیں ذبردستیاں کہنا جائز لگتا ہے وہ ان سے ان کا بچپن ،لڑھکپن، جوانی اور بڑھاپا تک چھین لیتی ہیں. ان ساری زبردستیوں کے بدولت اور ان کے ہجوم کے بیچ ایک شے ہوتی ہے جسے ذاتی سوچ کہتے ہیں ، وہ پیدا نہیں ہو پاتی یا پنپ نہیں سکتی۔ اس کو پنپنے کے لیے ماحول کو ماحول درکار ہوتا ہے جانے انجانے میں ہم اسی ماحول کے بر خلاف کاموں میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔

موٹیویشنل سپیکر جو کچھ بول کر عوام کو چونا لگا رہے ہوتے ہیں وہ انھوں نے پڑھا یا سنا ہوتا ہے ،ان کی ذاتی سوچ ہرگز نہیں ہوتی۔ یقین جانیے آپ کے گھر کا پالتو طوطا بھی ایسے ہی کام کرتا ہے ۔ صوفی و ملا بھی اپنے بڑوں سے سنے گئے قصے کہانیاں انداز بدلا بدلا حاضرین کو پیش کرتے اور داد وصول کرتے ہیں ، یہ ان کی ذاتی سوچ ہرگز نہیں ہوتی ۔

یہی حال کتابیں لکھنے والوں کا، میڈیا والوں کا اور سیانے کہلانے والوں کا بھی ہے اور ان کو سننے والوں کا حال تو بدحال سے بھی گر چکا ہے اس کا بڑا ثبوت غیر معیاری لوگوں کے ہاتھ میں مائک ہونا اور سننے والوں کا ہجوم ہے۔

اوپر بیان کیے گئے لوگوں کی باتیں ذاتی سوچ نہیں بلکہ کسی کی سوچ کا عکس یا برعکس ہیں۔ ایسی سوچ کسی پودے پر لگنے والے پھل کے ذائقے کی طرح ہے۔

ذاتی سوچ وہ سوچ ہوتی ہے جس میں بیج بھی آپ کا اپنا ہو، پودا بھی آپ اگائیں اور اس پر نکلنے والا پھل بھی آپ کی محنت کا ہو، تب اس کا ذائقہ ذاتی سوچ کہلا سکتا ہے ۔ تاریخ جن بڑے بڑے ناموں سے بھری پڑی ہے اس میں ذاتی سوچ رکھنے والے ایک فیصد بھی نظر نہیں آتے۔ باقی سب اپنی سوچ کے ساتھ زبردستی کرنے والے ہیں ۔ انسانی دماغ میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ اس میں جو بھی ڈالا جائے وہ کیسٹ ریکارڈر کی طرح اسی کو بولنا شروع کر دیتا ہے ۔ اس میں ذاتی سوچ کا کوئی عمل دخل شامل نہیں ۔

امت مسلمہ کو ایسی سوچیں بنا کر دینے والوں کی گفتگو کو علامہ اقبال نے کچھ اس طرح سے قلمبند کیا ہے

آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام

مفہوم یہ ہے کہ بے شعوری کی حالت میں زندگی گزارنے والوں میں ذاتی سوچ کی آرزو ہی مر چکی ہوتی ہے اور اگر کبھی پیدا ہو بھی جائے تو جلد ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ اس کے ارد گرد کا ماحول اس کی موت کا سامان لیے ہوئے ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکل چکا ہے کہ اگر کوئی ذاتی سوچ کا متلاشی کسی صوفی یا ملا تک پہنچ کر اس کا علاج تلاش بھی کرے تو پتہ چلتا ہے وہ سب تو خود ملوکیت کے دور کے نصاب کو وحی کا درجہِ دے کر سر تسلیم خم کیے بیٹھے ہیں ۔

اگر دام صیاد سے بچنا چاہتے ہیں تو کبھی کبھی غور و فکر کی غارحرا میں تنہا بیٹھ کر اپنی سوچ اور اس سے پیدا ہونے والے عوامل کا تجزیہ کیجیے شاید آپ معلوم کر پائیں کہ آپ کی سوچ یا تو کسی اور کی سوچ کا نتیجہ ہے یا اس نتیجے سے اختلاف کا۔ یہی وہ مرحلہ ہوگا جہاں سے آپ کے اندر سے ایک نئے انسان کا جنم ہوگا جو صرف ذاتی سوچ کا قائل ہوگا۔ اس نومولود بچے کا نام مت رکھیے ، مذہب مت طے کیجیے اور ہو سکے تو کوئی کوئی بھی نتیجہ مت اخذ کیجئے ۔ اس بچے کو فقط انسان رہنے دیجئے ۔

ذاتی سوچ کا نیا ہونا ضروری نہیں کہ وہ دنیا میں پہلی دفعہ آپ ہی سوچ رہے ہوں، وہ ہزاروں سال پرانی ہو سکتی ہے مگر اس کا ذاتی ہونا نہایت ضروری ہے، اس کو اپنانے سے پہلے آپ نے ذاتی طور پر اسے پرکھا، ذاتی طور پر آزمایا اور پھر ذاتی طور پر اس کے نتائج کو تسلیم کیا ہوگا۔ ان نتائج کو تسلیم کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے انسان کو قرآن مومن کے لفظ سے یاد کرتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: حسنین ملک