ذاتی سوچ
July 20, 2024میلاد پر چڑیا کا افسوس
September 16, 2024
وہ میرے محلے کا ہی رہنے والا تھا
کبھی کبھار سلام دعا ہو جاتی تھی، وہ مجے اچھا یا برا نہیں لگتا تھا۔ یہ اس کی بہت بڑی خوبی تھی کیونکہ اس دور میں یہ دونوں گروہ بہت نقصان پہنچاتے تھے یعنی اچھے اور برے لگنے والے دونوں۔ تب تک یہ فیصلہ ممکن نہ ہو سکا تھا کہ زندگی میں زیادہ نقصان اچھے لگنے والوں نے پہنچایا تھا یا برا لگنے والوں نے، یا پھر برا لگنے والے کبھی اچھے لگا کرتے تھے اور کوئی نقصان یا تکلیف پہنچا کر برا لگنے والوں میں ہجرت فرما جاتے تھے۔ بحرحال ان دنوں میں ایسے لوگوں کو ہومیوپیتھک کہا کرتا تھا کہ انکا کوئی فائدہ نہ ہو تو نقصان بھی کوئی نہیں ہوتا۔
وہ چند افراد کسی ضروری گفتگو میں مصروف تھے مگر پھر بھی وہ بھلا مانس ان کو چھوڑ کر میرے پاس آیا اور گلے لگا، مجھے اس کا یہ پرتپاک استقبال اچھا بھی لگا اور تھوڑا عجیب بھی کیونکہ ہم پہلے کبھی ایسے گلے نہیں ملے تھے۔ وہ مجھے اپنے دوستوں کے پاس لے گیا اور میرا تعارف کروایا۔ پھر میرے لیے پانی پینے کو لایا۔ وہ میرا ضرورت سے زیادہ خیال رکھ رہا تھا اور جب بھی کوئی ہمارا ضرورت سے زیادہ خیال کرے تو ہم محبت کے ترسے ہوئے لوگ الٹا شک کرنے لگ جاتے ہیں۔
پھر اس نے کہا
بھائی پہلے پہل ہم سب بھی ایسے ہی حیران و پریشاں تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، یقیناً آپ بھی ہونگے تو میں آپ کو آہستہ بتاتا ہوں ،آپ بس سنتے جائیں ابھی کچھ دیر میں آپ کو سب جواب مل جائیں گے
آپ اس وقت اعراف میں ہیں یہ وہ جگہ ہے جو نہ جنت ہے نہ دوزخ، یہاں وہ لوگ آتے ہیں جو دنیا میں بہت اچھے نہ بن سکے تو بہت برے بھی نہیں تھے کہ ان کو کوئی سزا دی جائے۔ بس آپ سمجھ جائیں آپ بھی اسی طرح کے ہومیوپیتھک انسان تھے
یہ کہہ کر وہ تھوڑا سا ہنسا اسے لگا میں اس کی ہنسی سن کے بہتر محسوس کروں گا مگر ایسا کچھ نہ ہوا، مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ میں ایسے لوگوں کو ہومیوپیتھک انسان کہتا تھا، یا پھر شاید وہ بھی مجھے یہی کہتا ہوگا۔۔۔
رکیں، یہ مسئلہ چھوٹا تھا
اصل مسلئہ یہ تھا کہ میں ہوں کہاں؟
یہ اعراف وہ والا ہے جو قرآن میں اصحاب الاعراف لکھا ہوا ہے؟ کیا مطلب میں مر چکا ہوں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں ابھی تو اپنی گاڑی سے اتر کر اپنا بیگ اٹھا کر دفتر کی جانب جا رہا تھا، ابھی تو تنخواہ آنے میں کچھ دن رہتے تھے اور تنخواہ سے میں نے کتنے ہی خرچے کرنے ہوتے تھے، میں مر گیا تو میری فیملی کا کیا ہوگا؟ گھر کا کرایہ بجلی کا بل بچوں کے اخراجات اور باقی بھی میرے ڈھیروں معاملات؟
مجھے لگا یہ کوئی مذاق ہے یا پھر خواب۔ میں نے بہانے سے ہاتھ منہ پر رکھا اور ہتھیلی پر زورسے کاٹا، بہت درد ہوئی مگر آنکھ نہیں کھلی، میں نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا کہ موبائل نکال کر گھر رابطہ کروں مگر جیب نہیں مل رہی تھی اور نہ موبائل، دل گھبرانا شروع ہوا بلکہ ڈوبنا۔
اس نے مجھے گلے سے لگایا اور دھیرے سے بولا بھائی پلیز ریلیکس، مجھے پتہ ہے آپ کیا سوچ رہے ہیں بس کچھ دیر میں آپ بہتر محسوس کریں گے۔ وہ پیچھے ہٹا مگر اس نے میرا ہاتھ نہیں چھوڑا اور بولا
آپ شکر کریں آپ اصحاب النار میں نہیں گئے وہاں کے حالات آپ دیکھیں گے تو شکر ادا کریں گے اور آپ کو باقی سب پریشانیاں بھول جائیں گی، یہاں جنت جیسا منظر تو نہیں مگر پھر بھی سکون ہے
یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، میری بیوی میرے بچے میرے انتظار میں ہوں گے اور کتنے پریشان ہوئے ہوں گے، میری ماں بہنوں کا کیا حال ہوا ہوگا، میرے دوست میرے مخلص لوگ بھی اسی حال میں ہوں گے میں سوچتا رہا ، روتا رہا اور وہ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھے رہا۔ وہ میرا اس طرح سے خیال رکھ رہا تھا جیسا میرا سب سے قریبی اور مخلص دوست ہو۔
اس نے مڑ کر اپنے دوستوں کی طرف دیکھا تو انھوں نے ہاں میں سر ہلایا جیسے انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ اور پھر راضی نامہ کیا ہو۔
وہ بولا آئیں آپ کو کچھ دکھاتا ہوں، میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔
کسی موڑ پر ایک قریباً 35 سالہ لڑکی بیٹھی رو رہی تھی اور اس کے پاس کوئی نہ تھا۔ سڑک کے دوسری طرف سے دو اسی عمر کی لڑکیاں بھاگتی ہوئی آ رہی تھی وہ آکر اس کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گئیں۔ ایک نے اس روتی ہوئی لڑکی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور دوسری نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی پہلے دن ہم سب بھی ایسے ہی پریشان تھیں پھر۔۔۔۔
اتنے میں ہم وہاں سے مڑ چکے تھے۔ تھوڑا آگے فٹ پاتھ پر ایک بزرگ باریش انسان کسی گہری سوچ میں مگن تھے۔ ہمیں آتا دیکھ کر وہ اپنی چھڑی کے سہارے اٹھے اور بولے
بیٹا، یہاں سے فردوس کی بس مل جاتی ہے؟
میرا ساتھی بولا انکل جی مل تو جاتی ہے کیا آپ کے پاس فردوس کی ٹکٹ ہے؟
انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا، کافی سارے کاغذ کے ٹکڑے تھے جس میں سے وہ ڈھونڈنے لگ گئے۔ میرے ساتھی نے ان سے وہ سب کاغذ کے ٹکڑے لیے اور ان کو الگ کر کے دیکھا۔ اس میں سے ایک ٹکٹ مل گیا۔ ٹکٹ زرد رنگ کا تھا۔ میرے ساتھی نے کہا
انکل جی ابھی آپ کے پاس ٹکٹ نہیں ہے وہاں کا، تھوڑا انتظار کیجئے آپ کو وہاں کی ٹکٹ مل جائے گی۔
انکل بولے بیٹا میرے پاس وقت نہیں ہے نہ طاقت میں اب ایسا کیا کروں کہ ٹکٹ مل جائے ۔
انکل آپ مسکراتے رہیۓ اس کے لئے نہ وقت چاہیۓ نہ طاقت، لوگوں سے ایسے ہی پیار سے بات کریں جیسے آپ کر رہے ہیں اور کوئی بھولا بھٹکا آپ سے راستہ پوچھے تو یہیں بیٹھے بتا دیا کریں، آپ کا کام ہو جائے گا ۔
کچھ دیر ہم چلتے رہے، یہ کوئی پر رونق بازار تھا، لوگ اپنی گہما گہمی میں مصروف تھے۔ دو جوان لڑکیاں سب لوگوں کو روک کر کچھ کہہ رہی تھیں۔ ان کے چہروں پر چمک تھی، جیسے عام طور پر امیر گھروں کی بچیاں ہوتی ہیں جن کو زندگی میں بہت آسانیاں ملی ہوتی ہیں۔ جب وہ ہمارے پاس آئیں تو ایک نے مُجھے کہا
پلیز یہ شربت پی لیجئے، صندل کا خالص شربت ہے۔
دوسری کے ہاتھ میں ڈسپوزیبل گلاس تھے۔ اس نے ایک گلاس نکالا اور جگ میں سے ڈالنے لگی۔ میں چونکہ شربت وغیرہ نہیں پیتا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ منع کر دوں ایسے ہی ضائع ہوگا تو میرا ساتھی فوراً بولا کہ اس کے لیے بھی ڈال دیں۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور اس کے لیے بھی ڈال دیا۔ انھوں نے جھک کر ہمارا شکریہ ادا کیا اور ہم آگے چل پڑے۔
کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد بازار اور ہجوم ختم ہو گیا۔ وہاں ایک چار یا پانچ سالہ بچی آنسوؤں سے رو رہی تھی اور ساتھ ممی ممی کی آوازیں نکال رہی تھی جیسے اس کی ماں کہیں کھو گئی ہو۔ میرا ساتھی تھوڑا بھاگ کر اس تک پہنچنے لگا اتنے میں مخالف سمت سے ایک ہماری ہی عمر کی عورت بھی بھاگ کر ہم سے پہلے اس بچی تک پہنچی اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس سے پوچھا
کیا ہوا بیٹا کہاں گئیں آپ کی ممی؟ بچی کچھ جواب نہیں دے رہی تھی۔ اس عورت نے ایک کھلونہ دکھایا اور اس کو اٹھا لیا۔ آؤ ہم آپ کی ممی کو ڈھونڈتے ہیں اور آئس کریم بھی کھاتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ بازار کی طرف چل پڑی۔
میرے ساتھی نے نہایت محبت بھری مسکراہٹ سے ان دونوں کو دیکھا اور ہم آگے کو چل پڑے۔ بدلے میں وہ عورت بھی پیار بھری فاتحانہ مسکراہٹ سے ہمیں دیکھ رہی تھی جیسے اس نے کوئی معرکہ سر انجام دے دیا یو۔
آگے ایک بورڈ لگا ہوا تھا مگر وہ بارش کی وجہ سے فٹ پاتھ پر گر چکا تھا۔ اس پر فردوس لکھا ہوا تھا۔ میرے ساتھی نے کہا چلو اس کو ٹھیک کر کے واپس لگاتے ہیں۔ ہم نے مل کر اسے واپس پاؤں پر کھڑا کیا۔ مگر اس کے پاؤں زمین سے اُکھڑ چکے تھے۔ اسنے کہا تم اسے پکڑ کر رکھو میں مٹی اور پتھر لاتا ہوں۔ سڑک کے دوسری جانب کچھ نوجوان کھڑے ہمیں دیکھ رہے تھے اور آپس میں باتیں کرتے ہم پر ہنس رہے تھے۔ انھوں نے کچھ جملے بھی ہم پر کسے مگر مجھے آواز نہیں آئی۔ یقیناً انھیں ہماری یہ حرکت فضول اور مزاحیہ لگ رہی تھی۔ میرے ساتھی نے کہا اس طرف مت دیکھیں نہ ان پر توجہ کریں۔ یہ واحد لوگ تھے جو اس جگہ پر مجھے عجیب لگے، باقی سب لوگوں کے چہروں پر سکون تھا مگر ان کے چہروں پر الگ سی بدمعاشی جھلک رہی تھی۔ خیر میں نے بورڈ کی طرف چہرہ کیا اور ساتھی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اسے دو تین دفعہ جا کر مٹی اور پتھر اٹھا کر لانے پڑے تب جا کر اس بورڈ کی بنیادیں کچھ مضبوط ہوئیں اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بورڈ کو چھوڑا اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر دیکھا، میرے ساتھی نے کہا اب جانے والوں کو راستہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
مجھے بھی خوشی ہوئی کہ اچھا کام کیا اور ساتھ ہی محسوس ہوا کہ دکھ ختم ہو رہا تھا۔ بہت حیرانی ہوئی کہ ابھی تو مجھے اپنے مرنے اور پیاروں سے علیحدگی کا دکھ اور ان کی پریشانیوں کا احساس ستا رہا تھا اور اتنی جلدی میں خوشی بھی محسوس کر رہا ہوں۔ کہیں میں بے حس تو نہیں ہوں؟ میں خود سے سوال کر رہا تھا۔
اتنے میں میرے ساتھی نے کہا کہ بہترین ہو گیا اور ہم بورڈ سے آگے چل پڑے۔ میں نے واپس مڑ کر دیکھا تو اس بورڈ کی دوسری جانب الاعراف لکھا ہوا تھا۔ جس طرف ہم چل رہے تھے اس طرف دور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہلکی سفیدی نظر آرہی تھی یعنی برف جمی ہوئی تھی جیسا کہ ہمارے پاکستان میں مارچ کے مہینے میں شمالی علاقوں کی پہاڑیوں پر نظر آتی ہے۔ چوٹیوں کے نیچے بادل تھے جو کالے اور سبز پہاڑوں کے سامنے آکر خوبصورت دودھیا رنگ کا منظر پیش کر رہے تھے اور سامنے سے آنے والی ہلکی سی ٹھنڈی ہوا دل تک کو چھو رہی تھی اور غالباً اس ہوا میں کچھ پھولوں کی خوشبو بھی شامل تھی۔ کافی چلنے کے بعد میرا ساتھی رکا، اس نے دوبارہ محبت سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا
بھائی میں کوئی مفکر نہیں ہوں نہ مقرر، بس آپ سے پہلے سے یہاں موجود ہوں اس لیے یہاں کے قوانین سمجھ گیا ہوں اور آپ کو بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں
وہ سامنے جو خوبصورت جگہ نظر آرہی ہے وہ فردوس ہے، وہاں کے لوگ اخلاق ،کردار اور حسن میں اتنے خوبصورت ہیں کہ جگہ دیکھنے کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا، وہ اس لیے وہاں ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگیوں میں ہی اپنے ارد گرد فردوس بنا رکھی تھی، ان کی زندگیوں میں لوگوں کو انھیں مل کر، ان سے معاملات کر کے، ان کے ساتھ رہ کر ایسا ہی سکون ملتا تھا جیسا اس سامنے والے منظر کو دیکھ کر مل رہا ہے
کچھ لوگ یہاں اعراف سے بھی وہاں چلے جاتے ہیں ، یہاں اعراف میں وہ لوگ ہیں جن کے امتحان میں نمبر تھوڑے سے کم تھے کہ انھیں فردوس میں داخل کیا جاتا۔ اللہ کا بنایا ہوا نظام اتنا عادل اور پرورش کرنے والا ہے کہ اس نے اعراف میں بھی ایسے موقعے رکھے ہیں جس سے انسان کے نمبروں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا جتنے نمبر تو نہیں ملتے مگر ملتے ضرور ہیں۔ یہاں آکر لوگوں کو سمجھ آجاتی ہے کہ ان کو صرف نمبر چاہئیں جو انسانوں کے ساتھ حسن عمل سے ہی ملیں گے، اس لیے آتے ہوئے آپ نے دیکھا ہوگا شروع میں جو ایک لڑکی رو رہی تھی وہ ابھی دنیا سے ہی آئی تھی اور دوسری طرف سے دو لڑکیاں اس لیے بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی تھیں کیونکہ انھیں پتہ تھا یہ پریشان ہوگی اور ہمیں اسکا ساتھ دینا ہے، اس کو حوصلہ دینا ہے، تھوڑی دیر تک وہ نارمل ہو جائے گی تو نیکی کا موقع نہیں رہے گا، اس لیے یہاں لوگوں کا دل چاہتا ہے کہ انھیں نیکی کا موقع مل جائے بس۔ شروع میں لوگ نمبروں کے لیے کرتے ہیں مگر پھر وقت کے ساتھ اس حسن عمل میں ایسا مزہ آتا ہے کہ مزہ نمبروں سے زیادہ کارگر ہو جاتا ہے۔
آگے ہمیں ایک بزرگ ملے تھے ان کو فردوس کا ٹکٹ ملنے والا ہے بس تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے۔ وہ کمی مسکراہٹ سے بھی پوری ہو سکتی ہے، مسکراہٹ میں شفقت ہوتی ہے اور شفقت کسی کے زخموں پر مرہم کا کام کرتی ہے اور مرہم لگانے والا مرہم بنانے والے کے قریب ہوتا جاتا ہے۔
آگے چل کر مجھے پتہ تھا آپ شربت نہیں پیتے اس لئے میں نے خود سے ان لڑکیوں سے کہہ دیا کہ مجھے بھی ڈال دیں، اس طرح آپ بھی انکار نہیں کر پائے۔ اصل میں ہمیں نہیں، ان لڑکیوں کو ضرورت تھی۔ زندگی میں بیشتر اوقات ہم بہت سے کام اس لئے نہیں کرتے تھے کہ ہمیں ان کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی جبکہ وہی اصل کرنے والا کام ہوتا تھا جب ہمیں ضرورت ہی نہ ہو اور ہم دوسروں کے لئے کرتے جائیں۔
چھوٹی سی معصوم بچی پتہ نہیں کیسے مر گئی اور یہاں آکر پریشانی میں ماں کو پکار رہی تھی، اگر کوئی ہمیں صرف پریشانی میں یاد کرے تو اس بات کا برا نہیں منانا چاہیے کہ وہ صرف پریشانی میں ہی یاد کرتا ہے کیونکہ پریشانی میں سب سے پہلا خیال کسی ہمدرد کا ہی آسکتا ہے جیسے اس بچی کو ماں چاہیے تھی اور جو عورت سامنے سے بھاگتی ہوئی آئی اور بچی کو سنبھالا وہ میلہ لوٹ گئی نیکی تیار تھی اور اس نے پورا فایدہ اٹھا لیا
جو سڑک کے پار دوسری طرف کا علاقہ تھا اسے عقبہ کہتے ہیں وہاں لوگ سارا دن وقت ضائع کرتے ہیں، طعنہ زنی کرتے ہیں، لوگوں کو برا بھلا کہتے اور ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں حتیٰ کہ ہماری طرف کی نیکیوں کو بھی دکھاوا کہہ کر اس طرف آنے سے خود کو روکے رکھتے ہیں، اصل میں وہ ہم سے نہیں، اللہ کی رحمت سے ناراض ہیں اور مکافات عمل یہ ہے کہ پھر اللّٰہ کی رحمت بھی ان سے ناراض ہے۔
آپ نیکی کا، حسن عمل کا ، کردار کا اور شعور پانے کا کوئی موقع نہ جانے دیجئے بہت جلد آپ فردوس میں ہوں گے، آپ بھی میرے لیے نیکی کا ایک موقع بن کر آئے اس کے لیے میں آپ کا اور اللّٰہ کا شکر گزار ہوں
اتنے میں ایک بس آکر رکی اور اس کا دروازہ کھلا، سامنے والی سیٹ پر وہی بزرگ بیٹھے مسکرا رہے تھے، میرے ساتھی نے ہاتھ کھولا تو اس میں ایک سبز رنگ کا ٹکٹ تھا اس نے بس میں سوار ہونے کے لیے قدم رکھا اور بولا
فردوس میں آپ کا میزبان بھی میں ہوں گا اس لیے شدت سے آپ کا انتظار رہے گا
دروازہ بند ہوا اور بس روانہ ہوگئی۔ میں کچھ دیر کھڑا رہا اور پھر اعراف کی طرف واپس چل پڑا۔
واپس جاتے ہوئے مجھے زندگی کا راز سمجھ آچکا تھا کہ اصل میں کرنا کیا ہے اور بچنا کس سے ہے۔ اعراف کی طرف جاتے ہوئے اپنے اعمال مجھے اپنے سینے پر نظر آئے اور شدید شرمندگی ہوئی کہ نیکی کے کتنے ہی موقعے میں نے بلا وجہ گنوا دیے تھے اور جن چیزوں کے لیے گنوائے تھے وہی آج میرے پاؤں کی بیڑیاں تھیں۔
دل سے دعا نکلی کہ کاش اعراف کی بجائے دنیا ہی میں واپس چلا جاؤں۔
بازار کے قریب پہنچا تو وہی بچی اسی عورت کے ساتھ کھیل رہی تھی اور مکمل سکون میں تھی۔ اتنے میں پھر ایک بس آئی اور اس کا دروازہ کھلا. اس عورت نے اپنی مُٹھی کو کھولا تو اس میں ایک سبز رنگ کی ٹکٹ تھی جس پر فردوس لکھا تھا۔ اس نے بس کی طرف دیکھا پھر مٹھی بند کر لی اور بچی کے پیچھے بھاگنے لگ گئی اور بچی ہنستی ہوئی آگے بھاگتی جا رہی تھی۔ بس چلی گئی تھی مگر اس عورت کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔
میں نے اس کے پاس جا کر پوچھا آپ کو فردوس کی ٹکٹ مل تو گئی تھی پھر آپ گئی کیوں نہیں؟
اس نے کہاں ہاں بھائی مل گئی تھی مگر اس بچی کے ساتھ ہی جاؤں گی۔ یہ کہہ کر وہ پھر بچی کے ساتھ مگن ہو گئی ۔ مجھے سبق سکھا گئی تھ
نیکی کا مزہ، نیکی کے اجر سے لاکھوں گنا بڑا ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں ہی سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تحریر: حسنین ملک