فیصلہ روز سنایا جا رہا ہے
November 21, 2023سیرو فی الارض
January 5, 2024
عربی زبان میں غلاف کا مادہ یعنی
Root Word
غلف ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی اصل شے کو ڈھانپنے یا چھپانے کے لیے اس کے اوپر ایک پردہ یعنی غلاف ڈال دینا۔ اس کی چند مثالیں جو عربی ادب میں دی جاتی ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں
تلوار کو نیام چڑھا دینا غلف ہے
انڈے کا بیرونی چھلکا غلاف ہے
اصل بات کو جھوٹ کے پردے میں ڈالنا غلاف ہے
آپ غور کریں تو یہ غلاف کہیں بھی مثبت معنی نہیں پیدا کر رہا بلکہ ہر دفعہ کسی شے کی اصل حقیقت پر پردہ ڈالنے، کسے اہم شے کو نظروں سے اوجھل کرنے یا بدل کے رکھ دینے کے مترادف ہے۔ ان مطالب پر غور و فکر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن پر غلاف چڑھانا کہیں سے بھی کوئی مثبت یا با مقصد عمل نہیں نظر آتا اور قدرے تنقیدی نقطہء نظر سے دیکھیں تو لگتا ہے اس اہم ترین پیغام کو چھپانے، نظروں سے دور رکھنے یا اس تلوار کو ہمارے نفس کو کاٹنے سے روکے رکھنا بھی ایک مکر ہو سکتا ہے۔
کچھ علمی افراد سے گفتگو کرنے سے کوئی منطقی جواب تو حاصل نہ ہوا، جو ایک معمولی سا جواب ملتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کو مٹی، گندگی سے بچانے اور پہچان دینے کے لیے غلاف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے اس جواب پر حیرانی ہوتی ہے کہ اگر کوئی کتاب دن میں ایک دفعہ بھی کھولی جائے تو اس پر مٹی کیسے جم سکتی ہے۔
کہیں کوئی یہ چاہ تو نہیں رہا تھا کہ اسے روزانہ کھولا ہی نہ جائے؟
گھر میں جتنے افراد ہوں اتنے ہی برتن، بستر اور الگ الگ لباس رکھے جاتے ہیں اور کبھی کبھار آنے والے مہمانوں کے لیے بھی ایک الگ کمرہ، کچھ الگ برتن اور باقی لوازمات بھی سارا سال الگ سے سنبھال کر رکھے جاتے ہیں مگر ننانوے فیصد گھرانوں میں پانچ سے سات افراد کے لیے بھی ایک ہی قرآن ہوتا ہے یا اس سے بڑے گھروں میں زیادہ سے زیادہ دو عدد قرآن۔ کہا جاتا ہے سونا تو سب نے ایک ساتھ ہوتا ہے اور کھانا بھی سب نے ایک ساتھ ہوتا ہے اس لیے گھر میں بستر اور برتن زیادہ رکھے جاتے ہیں، میں نے کہا یہ مناسب بات ہے، میں اس ضرورت اور افادیت سے متفق بھی ہوں ایسا ہی ہونا چاہیے مگر کیا کبھی ہمارے گھروں میں مل بیٹھ کر قرآن کو پڑھنے اور اسکے مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کو نوبت پیش آئی؟ ہر گز نہیں ایسا آپ نے بھی کہیں دیکھا سنا نہ ہوگا اور اس کی وجہ دو غلاف ہی ہیں ایک وہ غلاف جو قرآن کے اوپر چڑھا ہوا ہے اور دوسرا غلاف جو قرآن نے ہمیں سمجھایا ہے۔
البقرہ کی آیت 88 میں جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے، اس پیغام پر عمل نہیں کرنا چاہتے ان کے الفاظ کچھ اس طرح سے مذکور ہیں
وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں
غور کیجیے اس پیغام پر عمل نہ کرنے کی صورتحال کو غلاف سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں دو دفعہ استعمال ہوا ہے اور دونوں دفعہ انھی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں آپ ہمیں یہ قرآن سنائیں یا نہ سنائیں ہم اس کو سمجھنے یا عمل کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔ پس قرآن نے بھی اس لفظ کو کسی مثبت صورتحال یا مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔
آئیے مل کر غور کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں اور ہمارے دلوں میں کون سے غلاف ہیں ، اگر ایک غلاف نظر آئے تو فوراً اصلاح کر لی جائے اور اگر دونوں غلاف موجود ہوں تو توبہ کا مقام ہے۔
اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تحریر: حسنین ملک