سیرو فی الارض
ترجمہ :ہماری زمین میں گھوم پھر کر دیکھو
میں قرآن کی اس آیت پر اکثر غور کرتا اور حیران ہوتا تھا۔ عام طور پر پوری دنیا میں سیرو سیاحت کو ایک عیاشی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس پر ڈھیر سارے اخراجات بھی اتے ہیں تو عجیب لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کیسے ایسا حکم ارشاد فرما سکتا ہے جس میں لوگوں کا بے جا خرچ ہوتا ہو اور سفر کے دوران سارا وقت انسان اپنے روزمرہ کے معمولات اور زمہ داریوں سے دور بھی رہتا ہو۔
ایک بین الاقوامی سفر کے دوران میں نے اس آیت پر غور کرنے اور اس کے راز کو سمجھنے کی نیت ٹھان لی اور راز افشاء ہو گیا، گرہ کھل گئی ۔
گھر سے گاڑی نکالی اور لاہور ایئرپورٹ پہنچا تو ایئرپورٹ میں داخلے پر کھڑے سپاہی نے مجھے روکا اور پوچھا ، میں نے اپنی فلائٹ کا بتایا اس نے مجھے اندر جانے دیا۔ وہاں کافی سارے نمائندے موجود تھے جو مختلف قطاروں میں آنے والی گاڑیوں سے یہی سوال پوچھنے اور ضرورت پڑنے پر ان کی تلاشی بھی لے رہے تھے۔ آگے پارکنگ گیٹ تھا جہاں پھر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا گاڑیوں کو پارکنگ کارڈ دے رہا تھا اور اس طرح کے بھی 7 سے زیادہ بوتھ تھے جن میں مختلف جوان لوگوں کی خدمت میں مصروف تھے ۔ پارکنگ کے اندر گیا تو وہاں بھی کچھ جوان صفائی کر رہے تھے، کوئی لوگوں کو راستہ بتا رہا تھا اور کوئی سیکیورٹی میں مصروف تھا۔ ایسے ہی کچھ لوگ ٹرالی میں مسافروں کے سامان کو ایئرپورٹ کے اندر اور اندر سے باہر لانے کی نوکری سرانجام دے رہے تھے ۔ ایئرپورٹ اندر سے صاف ستھرا تھا جسکا مطلب ہے بہت سے لوگ اس کی صفائی پر معمور تھے ۔ سارے معاملات سے فارغ ہوکر میں اندر لاونج میں آکر کافی لے کر بیٹھ گیا۔ فلائٹ سے کچھ دیر قبل واش روم کا چکر لگایا، ہاتھ دھوتے وقت دیکھا کہ واش روم کی صفائی کرنے والا فون پر کسی سے کہہ رہا تھا
“ابھی تو پیسے ختم ہیں میرے پاس، بس دو دن رہ گئے ہیں پھر تنخواہ آجانے گی تو چاول رہنے دو بس آٹا لے لو تھوڑا سا”
میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ انسان واش روم صاف کرنے کی نوکری کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ شرم کیے بغیر محنت سے اپنا گھر چلا رہا تو اس کی کچھ مدد کرنی چاہیے ، میں نے اندازہ لگا کر دوتین دن کے حساب سے ایک خاندان کے خرچ کے برابر پیسے دیے جو اس نے شکرانے کی مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر لیے۔
اتنی سی بات ہوئی اور راز کھل گیا ، میں حیران تھا کہ اتنی آسان بات مجھے پہلے کیوں نہیں سمجھ آئی۔ بس سارا سفر، سارا رستہ ، شہر، جہاز اور ملک بدلتے رہے مگر میرے دل و دماغ میں ایک ہی گونج تھی
سیرو فی الارض, ہماری زمین میں گھومو پھرو
واہ، کیا بات کہہ دی۔ ایئرپورٹ کے داخلے پر کھڑے سپاہی، پارکنگ بوتھ پر کام کرتے لڑکے، پارکنگ کی صفائی اور سیکیورٹی پر معمور جوان، لوگوں کو سامان پہنچاتے محنتی افراد اور ایئرپورٹ کی صفائی کرتے مرد و خواتین ، ان سب لوگوں کا رزق مسافروں سے وابستہ ہے، مسافر ہیں تو ان کی نوکریاں ہیں ، لوگ آتے جاتے ان کو ٹپ بھی دیتے ہیں ۔ اسی سے ان کے گھر چلتے ہیں ، ان کے بچے کھاتے ہیں ، تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ان کے بزرگوں کو دوائیں ملتی ہیں، وہ موسم کی شدت سے بچتے ہیں ، ان کے گھروں کی خوشیاں اسی رزق سے منسلک ہیں ۔ کمال کردیا ، کوزے میں سمندر بند کر دیا۔
میں نے اللہ جی سے کہا آپ بھی کمال کرتے ہیں ، رب آپ خود ہیں اور ہمیں ربوبیت میں حصہ دار بنا لیتے ہیں تاکہ ہمارا بے حساب فائدہ ہو جائے ، پالنا آپ کا کام ہے لیکن آپ ہمیں اپنے ساتھ ملا کر ہمارا دل دماغ روشن اور مال پاک کرتے رہتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوا انھوں نے مجھ سے کہا ہو
سیرو فی الارض، ہماری زمین میں گھومو پھرو
میں نے جسارت کی کہ اجازت ہو تو اس کو ایسے لکھ دوں
سیرو فی الارض ہماری زمین میں گھومو تاکہ لوگوں کے گھر کھانا پک سکے کوئی بھوکا نہ سوۓ
سیرو فی الارض ہماری زمین میں گھومو تاکہ لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں
سیرو فی الارض ہماری زمین میں گھومو تاکہ لوگوں کے بزرگوں کو گھر کا سکون اور ادویات میسر ہوں
سیرو فی الارض ہماری زمین میں گھومو تاکہ لوگ گرمی سردی کی شدت سے محفوظ رہیں
سیرو فی الارض ہماری زمین میں گھومو تاکہ کسی سفید پوش کی بیٹی کی شادی ہو سکے
بلکہ اللہ جی گستاخی نہ ہو تو یہی کہہ دیتا ہوں
سیرو فی الارض۔ ہماری زمین میں گھومو تاکہ پوری دنیا کی معیشت چلتی رہے
میری ایک کتاب میں لکھا ہے کہ خدا کی کتاب کتابوں کی خدا ہوتی ہے مجھے ایک بار پھر صدق دل سے یقین آ گیا کہ ایسا ہی ہے ۔ صرف تین لفظ کہے سیرو فی الارض اور پوری دنیا کی اکانومی چلا کہ رکھ دی ۔ دنیا کے کسی شاعر یا ادیب سے کہیں کہ تین لفظ لکھیں اور اس سے پوری دنیا کا کوئی بھی مسئلہ حل کردیں۔ اللہ جی آپ کی کتاب نے چیلنج کیا تھا کہ کوئی اس جیسی دس آیات یا ایک سورت لکھ کر لادے۔ آپ کی اجازت سے میں چیلنج کرتا ہوں تین لفظ ہی اس جیسے لکھ کر لادے۔
بس پھر کیا تھا ، شہر اور ملک بدلتے رہے اور سیرو فی الارض ایک بہترین ہمسفر کی طرح میرے ساتھ رہی۔ جس ہوٹل میں ٹھہرا وہاں تقریباً 55 سالہ خاتون صبح نہایت لذیذ اور صحت افزا ناشتہ بنا کر میرے کمرے میں لاتی تھی ۔ میں اس کی زبان نہیں بول سکتا تھا اور اسے انگریزی نہیں آتی تھی ، مسکراہٹ سے شکریہ ادا کرتا اور وہ بھی بدلے میں ہلکا سا مسکرا دیتی تھی۔ اس کا چہرہ اس کے تلخ تجربات و حالات کی عکاسی کرتا تھا جب ھی وہ اس عمر میں بھی یہ کام کر رہی تھی اور سیرو فی الارض اس کے گھر کی معیشت کو بحال رکھے ہوئے تھی۔
عربی زبان کے اصول کے مطابق جب سیرو لکھا جائے تو اس کا مطلب حکم ہوتا ہے اور حکم کوئی گزارش نہیں ہوتا ںبس حکم ہوتا ہے جسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تحریر: حسنین ملک