رینالہ خورد اوکاڑہ کے پاس ایک تحصیل ہے جہاں مجھے آج سے تقریباً تیس سال قبل ایک فوجی کالونی میں پانچ سال گزارے کا اتفاق ہوا ، روزانہ سکول ، کالج اور بازار جاتے ہوئے راستے میں ایک نہر کا پل آتا تھا جو شہر سے رابطے کا واحد ذریعہ تھا۔ دن میں کم سے کم چار دفعہ اس پل سے گزرنا فرض تھا ۔
اس پل پر نہری پانی کا بہاؤ بہتر بنانے کے لیے جھال
تیار کی گئی تھی جو پل کے مشرقی طرف سے آنے والے پانی کو مغرب کی طرف 10 فٹ نیچے گراتی تھی اور یوں پانی کا بہاؤ مغرب کی طرف تیز ہو جاتا تھا اور اگلے علاقوں کو سیراب کرتا تھا۔ پل کی دائیں جانب ایک لوہے کی بڑی اور مضبوط جالی تھی جو ٹوٹ کر گرے ہوئے درختوں اور نہر میں پھینکی گئی غیر ضروری چیزوں کو روک لیتی تھی اور صرف پانی گزرتا رہتا تھا ۔ محکمہ انہار کے ملازم ہر کچھ دن بعد دائیں طرف کی جالی میں پھنسی ہوئی چیزوں کو نکال دیتے تھے تاکہ پانی کا راستہ صاف اور بہاؤ تیز رہے ۔
رینالہ خورد میں ان دنوں انگلستان سے ایک خط موصول ہوا جس میں کسی کمپنی نے لکھا تھا کہ یہ پل ہم نے 1892 میں بنایا تھا جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی اور ہم نے سو سال کی گارنٹی دی تھی کہ یہ پل نہیں گرے گا۔ اگرچہ ہم 1947 کو ہندوستان میں اپنی کمپنی بند کر کے واپس انگلستان آ چکے ہیں مگر ہمارے ریکارڈ کے مطابق آج ہماری طرف سے دی گئی پل کی گارنٹی مکمل ہو گئی ہے آج کے بعد ہم اس پل کے لیے زمہ دار نہیں ہوں گے۔
یہ چھوٹا سا معمولی سا خط نہایت غیر معمولی پیغام دے گیا۔ قوم کے معیار کیا ہوتے ہیں اور ان معیارات کو نبھانے والے کتنا احساس زمہ داری رکھتے ہیں ، انسان کی زبان, اس کے الفاظ کتنے اہم ہوتے ہیں وہ یہ خط ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہا تھا، نہ وہ کمپنی ہندوستان میں رہی، نہ وہ حکومت باقی رہی، نہ وہ لوگ زندہ رہے اور نہ ہمارے پاس کوئی ایسا ریکارڈ تھا کہ ہم ان پر کوئی دعویٰ کر سکتے پھر بھی کوئی انگلستان میں بیٹھا ہوا ایک شخص یہ زمہ داری نبھاتا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو پیغام دیتا ہے کہ قوم اپنے معیار پر فائدے اور نقصان سے بالاتر ہو کر عمل پیرا ہوا کرتی ہے۔
اسی پل سے گزرتے ہوئے ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ پل کی دائیں جانب سے ایک لاش بہتی ہوئی آتی ہے اور لوہے کی جالیوں کے پاس آکر رک جاتی ہے کیونکہ اس سے آگے وہ جا نہیں سکتی۔ لاش ایک جوان لڑکی کی ہے جو شادی کے سرخ جوڑے میں ملبوس ہے اور زیور تک بھی نمایاں نظر آ رہا ہے ۔ لاش سیدھی حالت میں ہے ، بازو کھلے ہوئے ہیں ، چہرہ آسمان کی طرف ہے اورکھلی ہوئی گول آنکھیں ایک جگہ ساکت ہیں ۔ اسے دیکھ کر خوف سا طاری ہو جاتا ہے ویسے تو ہر دو تین ماہ بعد کوئی نہ کوئی لاش یہاں آ کر رکتی تھی اور محکمہ انہار والے اسی دن یا اگلے دن اسے ضرور نکال کر امانتاً دفنا دیتے تھے مگر دلہن کی لاش دیکھنے کا یہ خوفناک منظر میرا اور میرے جیسے بہت سے چھوٹے دل والوں کا پہلا تجربہ تھا جو کافی مہینوں تک زہن سے نہیں نکل پایا۔ آج تیس سال بعد بھی آنکھوں میں وہ لڑکی آتی ہے تو اس کی کہانی ساتھ ہی امڈ آتی ہے ، عام سی کہانی ہے لڑکی کسی کو پیار کرتی ہے اور ٹوٹ کر چاہتی ہے ، لڑکا بھی رشتہ بھیج دیتا ہے، دونوں کے فرقے و برادری مختلف ہونے کی وجہ سے انکار ہوتا ہے، لڑکی اپنی ماں اور بڑی بہن کو بہت بار بتاتی ہے کہ وہ مر جائے گی مگر کسی اور کے ساتھ شادی نہیں کرے گی، پھر بھی اس لڑکی کا رشتہ جلدی سے کہیں اور طے کر دیا جاتا ہے ، ہمیشہ کی طرح والدین سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ شادی تو جیسے کینیڈا کی امیگریشن ہوتی ہے ۔
بارات کے انتظار میں پورا خاندان گھر کے صحن میں بیٹھا ہے ، لڑکی اپنی ایک سہیلی کی مدد سے کھڑکی سے نکلتی ہے اور جا کر لڑکے کو پیغام پہنچاتی ہے ، لڑکا اس صورتحال سے گھبرا کر ڈر جاتا ہے اور اسے پیغام بھیجتا ہے کہ واپس چلی جاؤ ، لڑکی کو یقین نہیں آتا کہ وہ لڑکا بھی اسکا ساتھ چھوڑ سکتا ہے ، اسکے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہے سو وہ نہر میں چھلانگ لگا دیتی ہے ، لڑکی کو تیرنا نہیں آتا پانی کے نیچے تیس سیکنڈ بعد اسکا دم ٹوٹ جاتا ہے ، تھوڑی دیر میں لاش پانی کی سطح پر واپس آ جاتی ہے اور اور اب اکیلی دلہن کی بارات 25 کلومیٹر سفر طے کر کے رینالہ خورد کے پل پر آکر ٹھہرتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے یہ 25 کلومیٹر دلہن کا منہ آسمان کی طرف ہی رہا ہوگا اور وہ دور آسمان میں کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتی رہی ہوگی کہ تو بتا میں کہاں جاتی؟
میں کالج سے شام سے کچھ دیر پہلے واپس آیا تو پل کراس کرتے وقت ڈرتے ڈرتے نہر کی طرف دیکھا۔ وہ لاش وہیں تھی شاید آج صفائی کا دن نہیں تھا اس لیے اس بارات کو رات یہیں ٹھہرنا تھا۔ رات کو کھلے آسمان تلے جب سونے کے لیے لیٹا تو میں نے غور سے آسمان میں دیکھا کہ شاید مجھے وہ نظر آ جاۓ تو میں اسے کہوں کہ دلہن کو جواب تو دے، وہ تو تمھارے جواب کے انتظار میں پلکیں تک جھپکنا بھول گئی ہے
نیند نہیں آ رہی تھی کیونکہ میری اور دلہن کی آنکھیں آسمان میں کسی جوابدہ کو تلاش کر رہی تھیں مگر شاید وہ شرمندہ تھا اسلئے نمودار نہیں ہوا۔ شاید وہ کبھی بھی جوابدہ نہیں ہوا ہوگا۔ قانون بنانے والے بھی کبھی قانون کو جوابدہ ہوتے ہیں ؟
جواب نہیں آیا مگر یکایک آسمان آئینہ بن گیا اور اس آئینے میں مجھے دلہن نظر آئی ، اب بھی اس کی سوالیہ آنکھیں آئینے کی جانب کھلی ہوئی تھیں ، میری جانب کھلی ہوئی تھیں ۔ مجھے لگا جیسے اب وہ مجھ سے پوچھ رہی ہو، میں ڈر گیا اور کروٹ بدل لی۔ ہم مرد یہی کرتے ہیں ۔
صبح کالج جاتے ہوئے پھر اسی پل صراط سے گزرنا پڑا ، میں اب دو دن میں کافی دلیر ہو چکا تھا سو میں نے اعتماد سے نہر کی طرف دیکھا۔
وہاں کسی دلہن کی لاش نہیں تھی
وہاں کسی سوالیہ آنکھوں والی لڑکی کی لاش نہیں تھی
وہاں ہمارے کسی فرقے اور برادری کی لاش نہیں تھی
وہاں کسی کے ضمیرکی بھی لاش نہیں تھی
اور نہ ہی وہاں کسی کی محبت کی لاش تھی
دلہن کی رخصتی ہو چکی تھی ۔۔۔
تحریر: حسنین ملک