بچپن میں رمضان میں کسی دوست کے منہ سے نکل گیا “روزہ کھانے سے بیر ٹوٹ جاتے ہیں ” بس پورا رمضان یہی جملہ دوہرا دوہرا کر ثواب دارین حاصل کیا گیا
بچپن میں کسی دوست کے منہ سے انجانے میں اگر کوئی غلط لفظ نکل جاتا تھا تو باقی دوست اس
لفظ کو دوہرا دوہرا خوب مزے لیتے تھے اور جس نے بولا ہوتا تھا اس کا خوب مذاق اڑایا
جاتا تھا.
قرآن کا مطالعہ کیا تو سوره حجرات کی آیت نمبر ١١ نے خطرے کی گھنٹی سنا دی کہ کسی کا مذاق اڑانے والے خود پست لوگوں میں سے ہیں ، الله نے انھیں فاسق وظالم قرار دے دیا اور الله کبھی فاسقوں اور ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا
تھوڑے بڑے ہوئے تو کسی نے سمجھایا کہ یہ بہت بری بات ہوتی ہے اور ایسا کرنا ہمارے نبی علیہ اسلام نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے .سیرت کی کتابوں سے پتا چلا کہ نبی کے ساتھ دوسروں نے اگر ایسا کیا تو بدلے میں انہوں نے خاموشی ہی اختیار کی
نبی کے بعد تمام اقربا ، اولیا اور صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ سب نے یہی کہا ہے بلکہ کہیں تو اس عمل کی اتنی مذمت کی گئی ہے کہ ایسا کرنے والے کو نہایت غیر معیاری انسان قرار دیا گیا ہے اورایسے انسان کی باقی باتوں کو بہت پرکھ کر یقین کرنے کو کہا گیا ہے
اگر ہم غور کریں تو یہ کام ہم سب سے زندگی میں کبھی نہ کبھی ہو جاتا ہے جب ہم کہنا کچھ اور چاہ رہے Slip of Tongue ہوتے ہیں مگر منہ سے الفاظ ردو بدل کے ساتھ نکل جاتے ہیں . انگریز اس کو
بھی کہا کرتے ہیں . غور کریں کوئی بھی انسان جان بوجھ کر ایسی غلطی نہیں کرے گا اور خاص کر کہ وہ انسان جو بہت زیادہ لوگوں سے مخاطب ہو چاہے وہ کوئی سیاستدان ہو مولوی ہو یا پبلک سپیکر ، ان سب سے یہ غلطی انجانے میں ہو جاتی ہے مگر اس انجانے میں کی گئی غلطی کا مذاق اڑانے والے سب ہوش و حواس میں رهتے ہوئے اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں
الله کی بارگاہ کا منظر گمان میں لا کر سوچیں کہ ایک طرف وہ انسان کھڑا ہوگا جس سے انجانے میں کوئی بات نکل گئی جو کسی بھی قانون کی مطابق گناہ کے زمرے میں نہیں آتی اور دوسری طرف ہم کھڑے ہوں گے ، ہوش و حواس میں غلطیاں اور گناہ کرنے والے
یہ اختیار سو فیصد ہمارے پاس ہے کہ ہم
نے کس طرف کھڑ ے ہونا ہے اوراس وقت واقعی ہماری ٹانگیں کانپ رہی ہونگی ورنہ بقول شاعر :
“خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے
بدلنے کا
“
ظفر علی خان
تحریر: حسنین ملک