سکردو کے پائلٹ

Maasi By hassnain malik
ماسی
April 28, 2021
tangain kampana
ٹانگیں کانپنا
March 16, 2022

سکردو کے پائلٹ

skardu ke pilot

سکردو واحد شہر ہے جہاں کوئی ڈرائیور نہیں ہوتا سب پائیلٹ ہوتے ہیں
سکردو کے زیادہ تر ڈرائیور اردو زبان بہت اچھی طرح نہ جاننے کے باوجود گاڑی چلاتے ہوئے آپ کو ارد گرد موجود جگہوں، تاریخی و تفریحی مقامات، مختلف الانواع جانوروں اور پرندوں حتی کہ مذہبی اور سیاسی تغیرات پر بھی مستفید کرتے نظر آتے ہیں. یہ لوگ خطرناک اور مشکل ترین راستوں کے ڈرائیور ہونے کے ساتھ ساتھ  بہت اچھے ٹورسٹ گائیڈ بھی ہیں یعنی آپ کو الگ سے کسی ٹورسٹ گائیڈ کی ضرورت محسوس نہیں ہونے دیتے۔کم عمر ترین ڈرائیور بھی ان ساری خصوصیات کا حامل ہو گا۔
اس کی بنیادی وجوہات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں بھی ایجاد ضرورت کی بیٹی ہے۔ کم سے کم وسائل، شدید ترین موسمی حالات اور واحد ذریعہ آمدن ہو تو سارے لوازمات خود بخود ایک جگہ یکجا ہو جاتے ہیں. وہاں امجد صاحب کا شعر زیادہ حقیقی معلوم ہوتا ہے کہ
جھونپڑی میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اسی لئے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں
سفر کے پہلے مرحلے میں یہ آپ کو مکمل خاموش نظر آئیں گے یعنی وہ انتظار کرتے ہیں کہ ان کے مہمان اگر ان سے باتیں کرنا پسند کریں گے تو وہ بات کریں وگرنہ خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہیں گے۔اگر آپ نے کوئی مختصر سوال پوچھا جیسا کہ کتنی دیر کا راستہ ہے تو اسکا اتنا ہی مختصر جواب دیں گے کہ دو گھنٹے۔ ان کے کھانے بہت سادہ ہیں مرچ مسالوں سے پاک۔ شاید اسی چیز کے اثرات ان کی باتوں پر بھی آئے ہوئے ہیں۔ ہمارے کھانوں کی طرح ہماری باتیں بھی مرچ مسالوں سے پاک نہیں ہوتیں اگر ہوں تو ان میں کوئی “سواد ” نہیں ہوتا۔
 دوسرے مرحلے میں اگر آپ نے ان سے ذاتی گفتگو کی جیسا کہ کب سے گاڑی چلاتے ہو، کتنے بچے ہیں، گزارا کیسے ہوتا ہے؟ اور جو کچھ آپ خود کھا رہے ہوں وہ ان کو بھی دیں تو انکی تربیت کے اصول کے مطابق وہ بھی اپنے خول سے اتنا ہی باہر نکل آئیں گے اور آپ سے بھی اسی طرح کی تفصیلات پوچھیں گے اور ساتھ میں کھل کر آپ کو ساری سیاحتی تفصیلات سے آگاہی دیں گے۔ایک ذاتی تربیت یافتہ ملازم کی طرح یہ آپ کی پسند وناپسند کا خیال رکھیں گے، آپ کے سامان کی حفاظت کیمرے کی آنکھ کی طرح رکھیں گے اور آپ کے وہ سب کام خود ہی کر دیں گے جس سے آپ کی ساری توجہ سیاحت کی طرف مرکوز رہ سکے۔
 سیر کے بعد واپسی تک آپ کو محسوس ہوگا جیسے آپ ان کو مدتوں سے جانتے ہیں یعنی اعتماد اور مطابقت۔ یہ آپ کی کھانے پینے کی، رکنے چلنے کی اور گفتگو کرنے یا خاموش رہنے کی سب عادات سے واقفیت حاصل کر کے آپ کو ایک ایسا ذہنی سکون مہیا کرتے ہیں کہ شاید ہمیں اپنے ذاتی گھروں میں ملازم کو ایسا تیار کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔اور اگر آپ نے ان سے کوئی ایسی چیز کے متعلق پوچھا جو علاقائی طور پر صرف انھیں کے گھروں پربنتی ہو تو آپ کو مہمان سمجھتے ہوئے آپ کے لیے گھر سے بنوا کر لے آتے ہیں بھلے وہ ان کے اپنے لیے شاید مہینوں سے میسر نہ ہو۔
 یہ لوگ انجان ڈرائیور کو بھی روک کر پوچھتے ہیں کہ ان کو کوئی مدد تو نہیں چاہیے. شاید زندگی کی مشکلات ان کو قریب رکھنے کا باعث بن رہی ہیں اور ہماری زندگی کی آسانیوں نے ہمیں اک دوجے سے دور کر دیا ہے۔
 ایک ڈرائیور سے پوچھنے پر پتہ چلا یہاں ڈرائیور کی ماہانہ تنخواہ زیادہ سے زیادہ دس ہزار طے ہے جو ایک مزید حیرانی کی بات اس لیے تھی کہ یہ تنخواہ ہمارے پنجاب کی نسبت پچاس فیصد کم تھی جبکہ عادات، رویہ، سیکورٹی اور گائیڈنس دو سو فیصد زیادہ۔
 جب پوچھا کے اس دس ہزار میں گزارا ہو جاتا؟ تو اس نے مسکرا کر آہستہ سے کہا  نہیں ہوتا سر
 اس مسکراہٹ اور نہیں کے بیچ میں وہ ساری مشکلات، کمپرومائز اور قربانیاں صاف نظر آ رہی تھیں جو پورا مہینہ یہ شخص اپنے خاندان کے لیے دیتا ہے مگر اس سب کو وہ اپنے مزاج اور مسکراہٹ پر حاوی نہیں ہونے دیتا۔
 ایک دن ڈرائیور نے بتایا کہ اس کی بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے یعنی تعلیم کی کمی عقل کی کمی نہیں پیدا کر سکی. مزید بولا کہ ہم میں سے جو لوگ حالات کی وجہ سے پڑھ لکھ نہیں پاتے وہ کسی اور کی گاڑی چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ہمیں ڈرائیور کی نوکری ملتی ہے تو ہمارے ماں باپ سب کو ایسے خوشی کی یہ خبر سناتے ہیں جیسے آپ کے ہاں بیٹا پائیلٹ بن جاتا ہے۔

سکردو واحد شہر ہے جہاں سب پائلٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

تحریر: حسنین ملک

This article has also published on Urdupoint.com