یقین جانیے ہمیں صرف دو کام کرنے ہیں اور پھر ہمیں ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
قطر ائیرپورٹ پر فرنگیوں کی تعداد دیکھ کر میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ پایا کیونکہ اتنے فرنگی تو کبھی دبئی میں نظر نہ آئے تھے ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ قطر کی حکومت اور عوام نے وہ دو کام کر لیے ہیں ۔
مجھے ہر شے کو پرکھ کر سمجھنے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ میں نے قطر کے بارے میں اپنے اس ذاتی تجزیے کو ایئرپورٹ سے ہی پرکھنے کا ارادہ کیا۔ میرے ہاتھ میں میرا لیپ ٹاپ بیگ تھا میں نے اسے ایک جگہ رکھا اور خود وہاں سے غائب ہو گیا ۔
قطر ایئرپورٹ بذات خود ایک الگ دنیا ہے یہاں آپ کو مہنگی ترین یورپین کپڑوں کی دکانیں ، اعلیٰ ترین فانوس اور ڈیزائن ، عجوہ کھجور سے لیکر آئرش وسکی تک تمام مہنگی مصنوعات، جرمن کاریں اور امریکی ہیرے دستیاب ہیں۔ اسی ائیرپورٹ کے اندر ہی ایک خوبصورت باغ ہے۔ یہ چند درختوں اور گرتے پانی کے فواروں پر مشتمل ایک ایسی جگہ ہے جو ایئرپورٹ کے اندر ہی آپ کو فطرت کے نہایت قریب لے جاتی ہے اور وہاں جا کر آپکا جلدی واپس آنے کو دل نہیں کرتا۔ آپ گھنٹوں وہاں بیٹھ کہ درختوں سے آنے والی قدرتی مہک اور انسانی بلڈ پریشر کو نارمل کرنے والی گرتے پانیوں کی آواز سے مسحور ہو سکتے ہیں ۔
پھر ایک مہنگا سا کافی کا کپ پیا کیونکہ سستا میسر نہیں تھا اور اس کے بعد میں اسی جگہ کی طرف واپس چل پڑا جہاں بیگ رکھا تھا۔ وہاں پہنچا تو میرا بیگ غائب تھا اور میرے پرکھنے کی بیماری نے میرے لیے ایک پریشانی کھڑی کر دی تھی۔ میں نے کچھ منتظر مسافروں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے سمجھایا کی ایسا کچھ بھی مسئلہ ہو جائے تو آپ انفارمیشن کاؤنٹر پر جا کر بتا سکتے ہیں ۔ وہاں ایک محمد نامی عرب نوجوان بیٹھا تھا جس نے میرا مسئلہ سننے کے بعد وائرلیس فون سے عربی میں ایک اعلان کیا جسے میں اتنا ہی سمجھ پاپا کہ لیپ ٹاپ بیگ کی ہی بات کر رہا ہے۔
کچھ دیر بعد ایک سیکورٹی گارڈ وہ بیگ لے کر آگیا۔ اسنے مجھ سے بیگ کے اندر موجود کچھ اشیاء کے بارے میں سوال پوچھا جو میرے بتانے پر بیگ مجھے دے دیا گیا۔ میں نے محمد کے شکریہ ادا کیا اور اسکے ساتھ ایک فوٹو بنائی اور اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ آپ محمد کے چہرے پر غور کریں، لیپ ٹاپ مجھے ملا تھا اور میری مدد کرنے پر وہ مجھ سے بھی زیادہ خوش تھا۔
واپس اپنے وطن پہنچ کر بھی مجھ سے رہا نہیں گیا اور قطری حکومت پر تحقیق کی کہ انھوں نے پچھلے کچھ عرصے میں کیا ایسا کیا جادو کیا ہے جو پوری دنیا سے فرنگی ان کے ہاں کاروبار کرنے اور کھیلنے پہنچ گئے ہیں ۔
2022 کا فٹبال ورلڈ کپ قطر میں منعقد ہوا جس کی افتتاحی تقریب میں ہالی وڈ کے جانے مانے ایکٹر مورگن فری مین کو بلایا گیا اور ان کے ساتھ قطر کے 20 سالہ غنم المفتاح تھے جو اپاہج پیدا ہونے کے باوجود 2017 میں نوجوان ترین کامیاب اور مقبول جوان کا ایوارڈ جیت چکے ہیں ۔ دنیا بھر سے فٹبال کے شوقین یورپین ،امریکن، لاطینی ،افریقی اور ایشیائی افراد کا ہجوم تھا ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا اس وقت یا تو قطر میں موجود تھی یا ٹی وی کے ذریعے اس تقریب کو دیکھ رہی تھی اور اس تقریب کا آغاز غنم المفتاح نے حیران کن طور پر سورتہ حجرات کی اس آیت سے کیا:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ
ترجمہ: اے انسانوں ہم نے تم سب کو مذکر اور مونث سے پیدا کیا، اور تمھارے درمیان صرف تعارف کے لیے قومیں اور قبائل قرار دیے ۔ اللّٰہ کے نزدیک صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ قانون توڑنے سے بچتا ہے۔
سوچیں کیا پیغام دیا جا رہا ہے ، کیسے دنیا کو بتایا جا رہا کہ جس قرآن کو جلانے کو تم بہادری سمجھتے ہو وہ تمھارے بارے میں ہی بات کرتا ہے اور تمھیں مذہب کے بجائے تمھارے کردار کے معیار پر پرکھتا ہے۔ تم پوری دنیا میں آج جسے سب سے زیادہ پسندیدہ شہری یعنی
Law Abiding Citizen
کہتے ہو اس بات کو ہمارا قرآن چودہ سو سال پہلے متقی کہ کر دہرا چکا ہے۔ ہم بھی اسی متقی کو سب سے زیادہ قابل احترام سمجھتے ہیں ۔ ہمارے لیے تمھاری رنگت، زبان یا شہریت سے کہیں زیادہ تقوی اہم ہے۔ ہم قانون توڑنے اور توڑنے والے کو کبھی عزت نہیں دیتے کیونکہ ہمارے قرآن نے ہمیں یہی سکھایا ہے ۔
قطری حکومت کی دستاویزات میں سے ایک جملہ میری آنکھوں کو بھا گیا وہ کچھ اس طرح ہے
Justice and equality and promoting tolerance and sympathy for other cultures.
عدل اور مساوات کو ایسے بڑھایا جائے کہ دوسری قوموں کے تمدن کو سمجھتے ہوئے ان کے لیے قبولیت کا جزبہ پیدا کیا جائے ۔
یہ ایک جملہ ان کے پورے عقلی وجدان کی عکاسی کے لیے کافی ہے اور وہ بحیثیت قوم اس ایک جملے پر عمل پیرا ہوچکے ہیں ۔ یہی عقلی وجدان ان سے وہ دو کام کروانے میں سب سے بڑا مددگار ہے ۔
پہلا وہ اپنے اور اپنے ملک میں آنے والے سب افراد کی عزت جان اور مال کا دل و جان سے احترام اور حفاظت کرتے ہیں
دوسرا وہ اپنے اور باہر سے آنے والے افراد کے رنگ و نسل سے آزاد ہو کر ان کے لیے یکساں کاروباری مواقع مہیا کرتے ہیں ۔
ہمیں بھی انھیں دو باتوں پر عمل کرنا ہے اور اپنے آنے والی نسل کو بھی یہی سکھانا ہے کہ بس دو کام کرنے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تحریر: حسنین ملک