کافرستان کے مسلمان
کافرستان کے مسلمان
September 11, 2019
جذبوں کا قبرستان
جذبوں کا قبرستان
October 22, 2019

قرآن بمقابلہ مسلمان

قرآن بمقابلہ مسلمان

ان لوگوں میں سے نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے دین میں فرقے بنا لئے اور گروہوں میں بٹ گئے۔ہر گروہ اُسی میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔  الروم 32

آئیں مل کر سوچتے ہیں کیا ہم وہی لوگ ہیں جن کے بارے اللہ فرما رہا ہے کہ یہ گروہوں میں بٹ گئے اور اسی صرف اسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں جو انکے فرقے کے پاس ہے۔ ایک سادہ سا لِٹمس ٹیسٹ کر کے دیکھ لیتے ہیں:

کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی سُنّی، دیو بندی یا وہابی علامہ صاحب ممبر پر آکر اعلان کریں کہ آج ہم سب ہاتھ کھول کر نماز پڑھیں گے تاکہ یک جہتی کا مظاہرہ ہو سکے؟

کیا ایسا کبھی ہو سکتا کہ کوئی شیعہ ذاکر مجلس کا موضوع شانِ ابوبکر صدیق رکھ دے اور اسی پر مجلس کا اختتام کرے تاکہ ابہام ختم ہو سکیں؟

اسکا سادہ سا جواب اوپر آیہ مبارکہ میں لکھا ہو ا ہے  ’ہر گروہ اسی میں مگن ہے جو اسی کے پاس ہے‘  کاش کہ ہم سب قرآن میں مگن ہو جاتے۔

اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو،سب مل کر اللہ کی رسی کو تھامے رکھو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جانا۔  اٰلِ عمران 102-103

زندگی میں تو ننا وے فیصد افراد اپنے اپنے فرقہ کی مفت تبلیغ میں مصروف رہتے۔ فرقہ واحد این جی او     ہے جسے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں رضاکار مل جاتے جو ساری زندگی دل و جان سے اس  ’کارِ خیر‘ حصہ ڈالتے اور لوگوں کو مفت رکنیت کی دعوت دیتے جس میں جنت کا ٹکٹ بونس کے طور مل جاتا صرف اس گروہ کا حصہ بنتے ہی۔

عجب سی بات ہے کہ مرنا مگر مسلم کی حالت میں، یہاں تو اگر زندگی میں آپ کو نہ بھی پتہ ہو کہ کسی صاحب کا  فرِقہ کیا تھا تو اسکے جنازے سے لازمی پتہ چل جائے گا کیونکہ ہم جنازہ بھی اُسی انداز سے پڑھتے اور پڑھاتے جو طریقہ  ’صرف اسی کے پاس‘  ہوتا۔ مولوی صاحب اور قریبی رشتہ داروں کا اندازِ نماز، دعا اور باقی معماملات بار بار اعلان کرتے رہتے کہ مرنے والا ’فلاں‘ فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ایسا لگتا کہ اب مسلم کی حالت میں پوری طرح مرنا بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ آپ کا جنازہ کسی نہ کسی فرِقہ کے مولوی صاحب نے پڑھاناہے۔

اُس(اللہ) نے تمھارا نام مسلمان رکھا،اس سے پہلے بھی اور اِس (قرآن) میں بھی۔  الحج78

جامعہ مسجد اہلِ سنّت و الجماعت، مرکزی امام بارگاہ اہل ِ تشیع اثناء اشریہ، مدرستہ البنات اہلِ حدیث، دیو بندی مرکز اور صرف اتنا نہیں بلکہ سُنّی حنفی بریلوی حیاتی وغیرہ وغیرہ۔یہ سب مذکورہ آیت کو بتا رہے کہ ہم تم سے زیادہ  ’سیانے‘  ہیں تمھیں کیا پتہ نام کیسے رکھنا ہوتا۔

بقولِ اقبال

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو،  بتاؤ تو مسلمان بھی ہو 

اور نہ ہو جانا ان لوگوں کی طرح جنھوں نے روشن دلیلیں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور فرقہ فرقہ ہو گئے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ اٰلِ عمران 105

قرآن سے بڑی اور واضح دلیل کیا ہو سکتی مگر پھر بھی ہم میں اختلاف پیدا ہو گیا اور ہم فرقہ فرقہ ہو گئے۔یہ سب اختلا ف تاریخی اور غیر قرآنی روایات کا پیدا کردہ ہے،سادہ سی بات ہے روشن دلیل کی طرف واپس پلٹ جائیں تو ابھی بھی فرقہ بندی سے نجات ممکن ہے ورنہ تو یہ ایک دیمک ہے جو ہماری بنیادوں تک کو کھا رہی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہر فرقہ کے واعظین اپنے سننے والوں کو یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ جنت کے ٹھیکیدار ہم ہی ہیں جبکہ اللہ اوپر آیت میں فرما رہا کہ ’ان کے لئے بڑا عذاب ہے‘۔

اس وقت امتِ مسلمہ کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم انفرادی سطح پر دن بدن اخلاقی، اخلاصی، سماجی اور دینی ذوال کا شکار ہو تے جارہے ہیں اور یہ سلسلہ نہ رکنے کی طرف رواں دواں ہے بغیر کسی شرمندگی یا احساس کے اور اجتماعی سطح پر آج تک اجتماع ہی نہیں ہو پایا۔غیروں کی بنائی ہوئی لابیز جس میں امریکن، یورپین اور چائنیز بہت مقبول ہیں، تمام مسلم ممالک بھی فرقہ فرقہ ہو کر ان گروہوں میں تقسیم ہیں اور دوسروں کے مفاد میں پھنس کر اپنوں کے لئے تکلیف کا باعث بن رہے۔ فلسطین و کشمیر پر تو کیا ہی رویا جائے جنھیں اُنھیں لابیز کے ممبر ممالک نے قبضہ کر کے یرغمال بنا رکھا ہے اور مدتوں سے ہماری غیرت کو دعوت ِ بیداری دینے کی ناکام کوشش کر ہے ہیں مگر انفرادی اور اجتماعی بے احتیاطی جوکہ اب بزدلی کا درجہ اختیار کر چکی ہے وہ سب سے بڑی دیوار ہے۔ میں جب اس سب صورتِ حال پر غور کرتا ہوں اور یقینا یہ آپکے لئے بھی اول تو تکلیف اور دوم غورو فکر کا باعث ہوتا ہوگا، تو واحد حل اجتماع میں نظر آتا ہے، یکجہتی اور اتحاد ہی ایک راستہ بچتا ہے اور یہاں تک پہنچنے کا واحد راستہ قرآن ہے کیونکہ اسکے علاوہ تو سب مواد ہمیں تقسیم کرنے میں کارفرما ہے۔ یہی بات ہمیں قرآن نے چودہ سو سال پہلے سمجھائی تھی

اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو اور آپس میں تنازعہ نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاء گے اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔  الانفال

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے،  تنہا کچھ نہیں

موج ہے اندرونِ دریا، بیرونِ دریا کچھ نہیں

                                                                                                         (اقبال)

اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

تحریر: حسنین ملک