پہلا سبق یہ پڑھا تھا کہ اچھے عمل کرنے چاہییں جیسا کہ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی کی بیٹی کی شادی کرا دینا ،کسی کا قرض ادا کر دینا، راستے سے رکاوٹ ہٹا دینا وغیرہ وغیرہ
جہاں جہاں اور جتنا جتنا ممکن ہوسکا کوشش کرتے رہے کہ یہ سب کر سکیں ۔ پھر کہیں پڑھا کہ اچھا عمل کرنے کے لیے اچھی نیت ہونا ضروری ہے ۔ جب اپنا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ کچھ اچھے کام کسی کی نظروں میں اچھا بننے کے لیے کیے تھے ،کچھ کام دکھاوے کے لیے کیے، کچھ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میں صرف برا نہیں ہوں اور کچھ اچھے کام بس بلاوجہ ۔
پیاز کا چھلکا اترا تو اب نیت درست کرنے کی کوشش کرنے لگ پڑا ، ہر اچھا کام کرتے وقت سوچتے رہنا اور اپنی ریاکاری کو روکنے کی کچھ کامیاب اور کچھ ناکام کوششیں کرتے رہنا ، سمجھ یہ آئی کہ اچھا کام اتنا آسان نہیں ہے اس کے لیے بھی اپنے اندر جنگ لڑنی پڑتی ہے ۔ بہت مدت بعد یہ محسوس ہوا کہ اب اندر کا چور پکڑا گیا ہے اور اچھا کام کرتے وقت وہ باہر نہیں نکل پاتا بس اغوا شدہ انسان کی طرح جسکے ہاتھ اور منہ بندھے ہوں، آوازیں نکالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔
نیت کے منہ پر ٹیپ لپٹ گئی تو پتہ چلا کہ دکھاوے سے بچنے کے بعد بھی پیاز کا چھلکا اترتا ہے اور وہ ہم سے کہتا ہے اچھے عمل اور اچھی نیت بھی بیکار ہے اگر اخلاص نہ ہو ۔ اب سوچا یہ اخلاص کیا بلا ہے ؟ کہاں سے ملے گا؟ کیسے ملے گا؟
فٹ پاتھ سے خریدیں ہوئی کسی پرانی اور بوسیدہ کتاب نے بتایا کہ اخلاص کسی بھی عمل کو غرض سے، ریاکاری سے ، بدلے میں اچھے عمل اور شاباشی کی توقع سے اور آخر میں نیکی کے غرور سے بچ جآنے کو کہتے ہیں ۔ یوں نیک عمل کرنے کی فہرست چھوٹی اور اس کے بارے میں فکرمند رہنے کی فہرست لمبی ہوتی گئی ۔ اب ہر عمل کو کرنے سے پہلے ایک فہرست اور ہر عمل کو کرنے کے بعد ایک فہرست ، عمل چھوٹا ہوتا تھا فہرست لمبی ہوتی تھی۔
آخر میں کسی تصوف کی کتاب میں پڑھا کہ عمل بھی ہو، نیت بھی درست ہو، ریاکاری اور غرور بھی پیدا نہ ہو اخلاص بھی مکمل ہو تو بھی عمل مقبول نہیں ہے کیونکہ یہ مالک کی مرضی ہے وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ یہاں آکر تو پیاز نے بھی مزید چھلکے اتارنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کے بعد کچھ بچا ہی نہیں ۔ صوفی صاحب نے میرا وہی حال کیا جو بقول شاعر
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
پہلے مالک ہم سے کہے کہ فلاں کام کرو جب ہم کر چکے ہوں تو وہ کہے ٹھیک ہے کرتے رہو میں آخر میں بتاؤں گا مجھے پسند آیا کہ نہیں ۔ مزدور سے مزدوری کروائیں، سارا دن اس کے کام پر نظر رکھیں اور شام کو دیہاڑی دیتے وقت بولیں کہ مجھے کام پسند نہیں آیا اس لیے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی۔
اس موضوع پر زیادہ نہیں بول سکتا پہلے پر جل جاتے تھے اب گھر جل جاتے ہیں بس وزیر علی کے شعر پر ہی اکتفا کروں گا
آپ ہی اپنے ذرا جوروستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
پھر مطالعہ بڑھا، ملک سے باہر نکلے ، تھوڑی دنیا دیکھی تو مزید چھلکے اتر گئے ، وہاں زیادہ تر افراد اچھے عمل نہیں کرتے بلکہ صرف عمل کرتے ہیں ۔ انھیں یہی سکھایا گیا ہے کہ بس عمل کرتے جاؤ ۔ عمل کرتے رہنا ہی سب سے اچھا عمل ہے۔ اس لیے ان کے پاس عمل سے پہلے اور بعد والی فہرست نہیں ہوتی ،بس عمل ہوتا ہے ۔ اگر کوئی عمل غلط ہو گیا تو اس کو درست کرنے کا بھی ایک عمل ہے، عمل پھول کی طرح ہوتا ہے اس میں سے خوشبو نکالنی نہیں پڑتی ،خود بخود باہر آتی ہے کیونکہ یہی اس کی سرشت ہے۔ ان لوگوں کی سرشت میں عمل روزمرہ کی چیز ہے، وہ کسی کو صحیح راستہ بتا رہے ہوں یا صحیح سامان بیچ رہے ہوں وہ اسے اچھا عمل سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ زمہ داری سمجھ کہ کرتے ہیں اور زمہ داری روز نبھانے سے زمہ داری نہیں رہتی عادت بن جاتی ہے اور عادت سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی، وہ ہوتی رہتی ہے ۔ پھر عادت کے بعد کسی فہرست کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ معمول بن چکی ہوتی ہے ۔
ایسے باعمل انسان پیاز کے چھلکوں کی طرح رنگ نہیں بدلتے بلکہ گلاب کی طرح پہلے کلی پھر پھول اور پھول کی بکھری ہوئی پتیاں الغرض کسی بھی حالت میں ہوں صرف خوشبو پھیلاتے رہتے ہیں اور پھول خوشبو پھیلا کر نہ تو غرور کا شکار ہوتا ہے نہ ریا کاری کا، بس اپنا کام کرتا ہے ، روزانہ ، بلا ناغہ ۔ بالکل ایک پرانی عادت کی طرح ۔
باعمل انسان کسی حجوم کا محتاج نہیں ہوتا ۔ میاں محمد بخش صاحب لکھتے ہیں
“قدر پھلاں دا بلبل جانیں صاف دماغاں والی
قدر پھلاں دا گرج کی جانیں مردے کھاؤں والی”
پھول کی قدر بلبل کر پاتی ہے کیونکہ اس کا دماغ صاف ہوتا ہے ، اسکی خوراک صاف ستھری چیزوں میں ہے اور اسکی آواز سکون پہنچانے کا باعث بنتی ہے ۔
پھول کی قدر گدھ نہیں کر سکتا کیونکہ گدھ کی خوراک مردار جانور ہیں ، مردار سے بدبو آتی ہے مگر گدھ اسے پھر بھی شوق سے کھاتا ہے کیونکہ اسے شکار نہیں کرنا پڑتا ، عمل نہیں کرنا پڑتا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تحریر: حسنین ملک