رشتے, پاس اور دور کے
رشتے, پاس اور دور کے
December 21, 2024

نقد سے تنقید تک

نقد سے تنقید تک

نقد کا لفظ اردو زبان میں عام طور پر پیسوں یا قیمت کے لئے استعمال ہوتا ہے خاص کر جب موقع پر ہی رقم ادا کر دی جائے۔ نقد کے اصل معنی ہوتے ہیں کھرا کھوٹا پہچاننا ، کسوٹی پر پرکھنا وغیرہ۔ اسی وجہ سے کوئی شے خریدتے وقت جب اس چیز کو اچھی طرح پرکھ لیا جاتا ہے تو رقم ادا کرنے کو نقد کہا جاتا تھا۔ اردو زبان میں یہ لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور عربی زبان میں بھی اس کا مطلب یہی ہے یعنی جانچ پڑتال کرنا، پرکھنا وغیرہ۔

تنقید کا لفظ اردو زبان میں عام طور پر اعتراض کرنے، نقص نکالنے یا انکار کرنے کے جواز کے طور پر استعمال میں لایا اور سمجھا جاتا ہے مگر یہ لفظ تنقید بھی دراصل نقد ہی سے نکلا ہے یعنی تنقید کا مادہ نقد ہے۔ پس تنقید کا مطلب ہے کسی شے کی جانچ پڑتال، پرکھ سمجھ یا غلط صحیح کی پہچان کے لئے کیا جانے والا عمل۔ یہ ہرگز بھی کوئی منفی شے نہیں ہے۔

آسان مثال سے سمجھتے ہیں، ہم پھل خریدنے کے لئے دوکاندار سے قیمت پوچھتے ہیں اگرچہ لکھی ہوئی بھی ہو پھر قیمت کم کرانے کی کوشش کرتے ہیں، پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پھل تازہ ہے یا نہیں اور ساتھ ہی پھل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ہلکا سا دبا کراور چاروں طرف گھما کر دیکھتے ہیں کہ کہیں سے خراب تو نہیں اور تسلی ہونے پر خرید لیتے ہیں۔ اس سارے عمل کو تنقید کہا جاتا ہے اور پھل بیچنے والے سے لے کر عام عوام تک کوئی بھی اس عمل کو برا یا عجیب نہیں کہتا نہ اس پر حیرانی کا اظہار کرتا ہے حالانکہ یہ سب کرنا دراصل تنقیدی عمل ہے ۔

اسی طرح اگر کسی محفل میں کوئی شخص گفتگو کے دوران اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کے لئے کہے کہ دنیا کے چالیس فیصد مرد جھوٹ بولتے ہیں تو اس کا جواب دینے والے کہیں گے کہ یہ بات آپ نے بالکل غلط کہی ہے اورجیسے ہی کسی کو محفل میں غلط کہا جائےتو گفتگو ایک ناگوار بحث کی طرف چل پڑے گی۔ ممکن ہے پہلا شخص یہ سمجھے کہ سب نے اس پر شدید تنقید کی ہے اور دل میں برا خیال بھی کرے۔

اب اسی محفل میں شامل افراد کو اگر باقاعدہ تربیت دی جائے، انھیں تنقید کے طریقے اور فائدے سے آگاہ کیا جائے تو یہی گفتگو کچھ ایسی شکل اختیار کرے گی

پہلا شخص اگر کہے کہ دنیا میں چالیس فیصد مرد جھوٹ بولتے ہیں تو جواب میں تنقیدی عمل کچھ ایسا ہوگا:

۱۔ یہ چالیس فیصد کا لفظ آپ نے محاورتاً استعمال کیا ہے یا واقعی ایسا ہے؟
۲۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ مقدار کہاں سے لی گئی ہے؟ کیا کوئی تحقیق کی گئی ہے جس کے آخر میں چالیس فیصد کا نتیجہ آیا ہے؟
۳۔ اگر تحقیق کی گئی ہے تو وہ ہم سے بھی شئر کریں ہم بھی اس کو دیکھنا چاہیں گے
۴۔ اور ابھی کے لئے ہم فرض کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہے تو آپ آگے ارشاد کیجئے کیا کہنا چاہ رہے ہیں

یوں گفتگو جاری رہے گی اور ایسے مرحلے میں داخل ہو جائے گی جہاں پہلا شخص اپنی بات مکمل کرے گا اور محتاط بھی رہے گا کہ اب کوئی ایسا لفظ نہیں بولنا جس کے لئے میرے پاس صحیح مواد میسر نہ ہو اور سننے والے اس گفتگو کو صرف سن رہے ہوں گے کیونکہ طے ہو چکا ہے کہ کسی مصدقہ تحقیق کے نتائج دیکھنے کے بعد ہی اسے تسلیم کیا جائے گا۔

تنقید کی دونوں سمتوں کے قانون موجود ہیں، یعنی تنقید کرنے والے اور تنقید موصول کرنے والوں کے لئے بھی۔

تنقید کرنے والوں کومندرجہ ذیل پر توجہ رکھنی چاہیے:

۱۔ صحت افزاء تنقید سے سننے والے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ آپ اس کا بھلا سوچ رہے ہیں اس لئے تنقید کرنے والے کو اپنے الفاظ اور لہجہ، دونوں کا مکمل خیال رکھتے ہوئے تنقید کرنی ہے۔
۲۔ مثبت تنقید سے موضوع کی مذید تفصیلات میں جانے کا موقع مل سکتا ہے جس سے علم و عقل کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔
۳۔ اچھی تنقید کرنے سے انسان دوسرے انسان کو بھی ایسا کرنے کا موقع مہیا کر دیتا ہے جس سے ہماری محفلوں میں شعور پروان چڑھتا ہے۔

اسی طرح تنقید سننے والوں کو ان باتوں پر دھیان دینا چاہیے

1

تنقید سننے سے انسان محتاط گفتگو کرنے کا فن سیکھتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ بھی غلط یا غیر مصدقہ بولنے پر تنقید ہو سکتی ہے۔

2
مثبت شخصی تنقید انسان کی ذات میں بہتری لانے کا باعث بنتی ہے۔

3
۳ تنقیدی سوچ مسائل حل کرنے میں نہایت مددگار ہوتی ہے کیونکہ وہ مسائل حل نہ کرنے والے سارے عوامل کو رد کر دیتی ہے۔

تنقیدی ماحول سے جہاں ہم علم و عقل کی نئی شمعیں جلا سکتے ہیں وہیں ہم اسی شمع سے اپنی تاریکیوں پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔ تنقید کرنے والوں اور تنقید موصول کرنے والوں کے ساتھ ساتھ سامعین کے لئے بھی مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ تنقید کسی بھی گفتگو میں سے اپنی ذات اور اپنے علم میں موجود نقائص تلاش کرکے ان کو درست کرنے کی راہ ہے۔ جو تنقید کے اس راز سے واقف ہیں وہ تنقید سے بچنے کے بجائے اس کے متلاشی رہتے ہیں اور علم کے متلاشی ایسی محفلوں کی تلاش میں۔ بقول خالقِ قرآن

الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ
میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں

سورۃ الزمر آیت ۱۸

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

تحریر: حسنین ملک