مایوسی اور منزل
ایک ڈاکٹر دوست نے مجھے سکھایا کہ بیماری اور علامت میں فرق ہوتا ہے مثال کے طور پر کھانسی کو عام طور پر بیماری سمجھا جاتا ہے جبکہ کھانسی بیماری نہیں علامت ہے کہ اندر کوئی بیماری ہے، دوسری مثال یہ کہ بخار بیماری نہیں علامت ہے کہ اندر بیماری ہے. انسان کو پتہ ہی نہ چلتا کہ اسکے اندر بیکٹیریا پھیل رہے ہیں مگر جسم گرم ہو کر اظہار کر دیتا ہے کہ اندر کوئی مسئلہ چل رہا ہے.
یہ اصول بہت سے نفسیاتی مسائل اور ان کا حل سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے. جیسا کہ خود کشی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خود کشی مسئلہ نہیں، مسئلہ کہیں اور تھا جسکا نتیجہ خود کشی ہے. ایک واضح وجہ ڈپریشن ہے جو انسان کو خود کشی کی طرف لے جاتا ہے
یہی اصول ڈپریشن پر لاگو کریں تو سمجھ آتی ہے کہ ڈپریشن بذات خود نہیں ہوتا اسکی بڑی وجہ مایوسی ہے، کبھی کچھ چاہنا اور نہ کر سکنا، کبھی بہت کوشش کرنا پھر بھی حاصل نہ کر پانا، کبھی کچھ کر جانا مگر پتہ چلنا کہ یہ نہیں کرنا تھا اور واپسی کا راستہ نہ ڈھونڈ پانا، یہ سب مایوسیاں ڈپریشن کو جنم دیتی ہیں
مایوسی کیوں ہوتی ہے؟ انسان جب اپنے علم کے مطابق تمام کوششیں کر بیٹھتا ہے اور مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کر پاتا تو مایوس ہو جاتا ہے. جیسے دو میاں بیوی یا دونوں میں سے ایک جب ساری کوششیں (اپنے علم کے مطابق) کر بیٹھتے ہیں تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں یہ مایوسی ڈپریشن بناتی ہے اور ڈپریشن کے دوران کیے گئے رویے طلاق کا باعث بنتے ہیں
غور کریں ایک پانچ سال بچہ ماں باپ سے کسی بھیڑ میں بچھڑ جانے تو وہ صرف ایک لمحہ کے لئے نظر دوڑاۓ گا، والدین کو تلاش کرنے کے لیے اور نہ نظر آنے کی صورت میں رونا اور چیخنا شروع کر دے گا کیونکہ اسے نہ دیکھنے کے بعد مایوسی ہوئی اور اس نے رونا شروع کر دیا. یہی عمل اگر 12 سال کے بچے کے ساتھ کیا جائے تو اس کا رد عمل مختلف ہوگا. وہ لوگوں سے پوچھے گا، اپنا تعارف کراۓ گا یا ہو سکتا ہے کسی سے اپنے والدین کو فون کروا کر رابطہ کر لے گا. ان دونوں بچوں میں صرف والدین کو تلاش کرنے کے علم کا فرق تھا.
جب تک ایک بھی راستہ یا طریقہ موجود ہو انسان کے ذہن میں، انسان اس طریقے یا راستے کو اپنا کر کوشش میں لگا رہتا ہے، جب اسکے علم کے مطابق سارے راستے ختم ہو جائیں تو وہ مایوس ہو جاتا ہے
منزل تک پہنچنے کا، مقصود حاصل کرنے کا یا تلاش کرنے کا علم جہاں ختم ہو جائے گا وہیں سے مایوسی کی سرحد کا آغاز ہو جاتا ہے. اگر مطالعہ، تجربہ، تجزیہ، حالات سے نمٹنے کے گر یا پھر مختلف طریقوں سے ایک ہی منزل کو حاصل کرنے کا حوصلہ اور ہنر سیکھ لیا جائے تو مایوسی نہیں آ سکتی.
علم، کوشش اور لگن، مایوسی کی ضد ہیں. علم، کوشش اور لگن منزل و مقصد کی طرف جاتے ہیں جبکہ ان کا اختتام مایوسی کی طرف
اللہ ہمیں منزل کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور جو مایوسی کی طرف لے جانے والا ہو اسے شیطان کہتے ہیں
اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تحریر: حسنین ملک