میں اور میری تنہائی
اکثر یہ باتیں کرتے ہیں
کچھ جملے جو مجھے بچپن سے پریشان کرتے تھے اور ان کا جو بھی مطب سمجھایا جاتا تھا وہ پریشانی دور کرنے کے بجائے اضافے کا سبب بنتا تھا جیسا کہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ
میں نے جب مطلب ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ پاکستان فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا لفظی مطلب ہے پاکیزہ لوگوں کے رہنے کی جگہ اور لا الہ الااللہ عربی زبان کا جملہ ہے جس کا مطلب ہوا اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے جس کی اتباع کی جائے تو پاکستان کا مطلب دنیا کی کسی بھی زبان کے غلط ترین مفہوم میں بھی وہ نہیں بنتا جو ہمیں بتایا جاتا تھا
اللہ الصمد یعنی اللہ بے نیاز ہے
بے نیازی کا مطلب جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ جب کوئی شخص کسی کا محتاج نہ ہو بے پرواہ ہو وہ بے نیاز کہلاتا ہے ۔ ایک طرف اللہ کہتا ہے وہ الصمد یعنی بے نیاز ہے اور دوسری طرف وہ کہتا مجھے چھوڑ کر کسی اور طرف نہ چل پڑنا ، یہ جرم کبھی نہیں بخشوں گا ۔ اگر اسے کسی چیز کی پرواہ اور محتاجی نہیں ہے تو اسے کیا فرق پڑتا کہ لوگ کسے پوجتے یا مانتے ہیں اور اگر اسے فرق پڑتا ہے تو بے نیاز نہ ہوا۔
الو دا پٹھا
ایک دفعہ کچھ غلطی کرنے پر بچپن میں والد مرحوم نے مجھے الو دا پٹھا کہا، پہلی دفعہ میں نے یہ لفظ سنا تو دادی سے پوچھا کہ یہ الو دا پٹھا کیا ہوتا ہے انھوں نے سمجھایا جو کام ٹھیک طریقے سے نہ کرے یا غلطیاں کرے تو ڈانٹنے کے لیے الو دا پٹھا کہتے ہیں ۔ میں نے الو کے چھوٹے بچے کو غور سے دیکھا تو وہ نہایت معصوم ، نرم و ملائم اور سمجھدار آنکھوں والا نظر آیا، میں بچپن میں بہت حیران رہا کہ کو الو کا پٹھا کسی منفی معنوں میں کیوں استعمال ہوتا ہے ؟
بسم اللہ
بچپن سے پڑھایا گیا ہر کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنی ہوتی ہے ، کچھ شرارتی سے سوالات پوچھے کہ فلاں کام سے پہلے بھی پڑھنی ہے تو پتہ چلا کہ صرف نیک اور اچھے کاموں میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے ۔ گھر میں دادی اماں تھی اور ہم چھ بچے ، جب کوئی گر جاتا تو دادی پیار سے کہتی بسم اللہ اور زیادہ تر گھروں میں ایسا ہی ہے، میں سوچا کرتا تھا گرنا تو کوئی اچھا کام نہیں ہے اس پر بسم اللہ کیوں پڑھتے ہیں ، کچھ لوگوں سے پوچھا تو خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ پھر اس کا ترجمہ ہمیں بتایا گیا تھا شروع کرتا ہوں تو گرنے پر بسم اللہ پڑھنے کا مطلب کچھ مضحکہ خیز لگتا تھا ۔ پورا ترجمہ پڑھا تو اور زیادہ پریشانی ہوئی یعنی اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے۔۔۔
ٹوپی والا برقع
ہماری دادی اماں ٹوپی والا برقع پہنا کرتی تھی ، ایک دفعہ ان سے پوچھا تو کہنے لگیں کہ گھر کے باہر کے لوگوں کو کچھ نظر نہیں آنا چاہیے ، یہ بے حیائی ہوتی ہے ، تھوڑا بڑا ہوا سکول میں اساتذہ سے پردے کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے کو عورتوں کے نقش و نگار دیکھ کر مرد متوجہ ہوتا ہے اور اسے شہوت محسوس ہوتی ہے اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اس لیے عورت کو حکم ہے کہ وہ اپنا آپ چھپانے ۔ میں سوچتا تھا ٹوپی والا برقع پہن کر یا نقاب لیکر عورت تو چھپ جاتی ہے مگر اس عورت کو ارد گرد سارے مرد پوری طرح نظر آرہے ہوتے ہیں ، مردوں کے بال، چہرہ، گردن ، چھاتی اور ٹانگیں بھی۔ عورت بھی تو مرد کی وجاہت کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے تو اس سے بھی معاشرے میں پچاس فیصد بگاڑ تو پیدا ہو گیا ، یہ اللہ نے کیوں ایسا نظام بنا دیا جو صرف آدھے معاشرے کو ٹھیک کرے گا اور باقی آدھے کو پورا موقع دے گا؟
جب یہ سوال ذہن میں آیا کرتے تھے تب جواب ڈھونڈنے کے ذرائع بہت محدود تھے، جواب جاننے والے لوگ بھی میسر نہیں تھے اور گوگل ابھی اپنی پشتوں کی صلب میں پرورش پا رہا تھا تو جواب نہیں ملتے تھے
پھر بھی سکون تھا ، کوئی بے چینی نہیں تھی ۔
اب وقت، تجربے اور مطالعہ نے جواب دے دیے ہیں تو بے چینی بھی ہے ، شاید ایسے ہی موقع کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا
آگہی عذاب ہے
تحریر: حسنین ملک