اسلام آباد کے پہلو میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں قلندری سلسلہ کے ایک بزرگ کی چلہ گاہ تھی، میں بڑی مشکل سے ان کے ٹھکانے تک پہنچا ، شدید سردی میں وہ پتھروں سے بنی چھوٹی سی کوٹھڑی میں اکیلے رہتے تھے ۔ پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے راستے میں ان کا ٹھکانہ تھا سو وہاں تک پہنچنے میں خاصی توانائی درکار ہوتی تھی ۔
مجھے دیکھ کر وہ چونکے اور پوچھا کہ راستہ بھٹک گئے ہو؟
میں چونکہ زندگی کے راستے کی میں تلاش میں تھا اس لیے میں نے استعارہ میں جواب دیا جی ہاں راستے کی تلاش میں ہوں۔
انھوں نے آگ سلگاتے ہوئے میری طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور بس “ہوں” کہا
میں نے کچھ دیر کھڑے کھڑے سانس بحال کی تو انھوں نے کہا آ جاؤ بیٹھ جاؤ ۔
وہ خود بھی ایک ابھرے ہوئے پتھر پر بیٹھے تھے، میں بھی ان کے پاس ایک ایسے ہی پتھر پر بیٹھ گیا۔
لکڑیوں سے جلی آگ پر ایک برتن میں وہ کچھ ابال رہے تھے۔ لکڑیوں سے اور پانی سے بھی دھواں اڑ رہا تھا۔
وہ بولے یہاں جو بھی آتا ہے وہ راستہ ڈھونڈنے ہی آ تا ہے یا اوپر کا یا بہت اوپر کا۔
میرے جس دوست نے مجھے ان کے بارے میں پہلی دفعہ بتایا تھا اسنے تعارف یوں کروایا تھا کہ وہ ہر بات معرفت کی زبان اور استعارات کے استعمال سے کرتے ہیں اس لیے جو بھی کہیں اس کا ظاہری مطلب نہیں لینا اور جب وہ حجرے میں چلے جائیں تو بس واپس آ جانا سمجھ لینا محفل تمام ہو گئی ہے۔
تو یہاں اوپر سے مراد پہاڑ کی چوٹی تھی اور بہت اوپر سے مراد انسانی ذات کی بلندی تھی۔
مجھے بھی کہیں سے جوابات کی امداد مل رہی تھی، میں فورآ بولا “حضرت مجھے اوپر کا نہیں ، اندر کا راستہ چاہیے، صرف اپنے اندر کا”
راستہ ڈھونڈ کے کہاں جانا ہے ؟ انھوں نے پھر میری طرف دیکھے بغیر پوچھا
“خود تک پہنچنا ہے”
انھوں نے اپنے چہرے کی طرف آتے ہوئے دھوئیں کو جھاڑا اور بولے
“کسی بھی چیز، مقام یا جگہ کو ڈھونڈنے کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے”
یعنی میں ابھی ہوں ہی نہیں ، بات ٹھیک لگی، میں نے سوچا کہ میں کیا ہوں تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا ہوں، اگر میں سوچوں کہ میں موجود ہوں تو پتھر بھی موجودات میں سے ہیں ، میں سوچوں کہ میں چلتا پھرتا کھاتا پیتا انسان ہوں ، کسی کا بھائی کسی کا بیٹا ہوں تو ایسا تو جانوروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے پھر میں کیا ہوں؟ مجھے لگا کہ یہی تو ڈھونڈنے آیا ہوں۔
“رہنمائی فرمائیں کہ میں کیوں نہیں ہوں اور مجھے ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے ”
انھوں نے کوئلوں کو لکڑی سے ہلایا اور دوسری طرف سے جھک کر کچھ اٹھایا۔ جب میری طرف مڑے تو ان کے ہاں میں ایک بالکل گول گیند نما پتھر تھا۔ میری طرف بڑھایا تو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دعا کی شکل میں ڈھال کر ان سے لے لیا۔
وہ ایک مکمل گول پتھر تھا جیسے کسی ماہر نے اسے دنیا کے نقشے کی طرح مکمل گول تیار کیا ہو۔ وہ بولے
“ایک دن میں چلہ کر رہا تھا کہ یہ پتھر اوپر سے آ کر میرے سامنے گرا۔ میں نے اسے اٹھایا غور سے دیکھا اور اسے پوچھا
تم اتنے کھردرے پہاڑ اور نوکیلے پتھروں کے بیچ میں مکمل گول کیسے ہو گئے؟
” تو یہ پتھر مجھ سے بولا”
میں بھی کھردرا پتھر تھا، ہر طرف سے نوکیلا بھی، جس پر گرتا، جس کو چھو لیتا اسے تکلیف دیتا، اسے زخمی کر دیتا تھا, پھر زلزلہ آیا اس نے مجھے پہاڑ کی بلندی سے لڑھکا دیا، میں جیسے جیسے لڑھکتا گیا ٹھوکریں کھاتا گیا، جب جب ٹھوکر لگتی، میرا نوکیلا حصہ ٹوٹ جاتا ، پھر مجھے ہر طرف سے اتنی ٹھوکریں لگیں کہ میری ہر طرف کو نکلی ہوئی نوکیں ختم ہو گئی اور میں گول ہوتا گیا ، مکمل گول”
انھوں نے بات ختم کی، آگ کے چولہے سے کیتلی اٹھائی اور ایک پیالی میں قہوہ ڈال کر میرے سامنے رکھا اور خود اپنا برتن اٹھا کر حجرے کے اندر چلے گئے۔
میں نے پتھر نیچے رکھا، قہوہ ختم کیا اور اسی راستے سے واپس ہو لیا۔ سارا راستہ ان کی باتوں میں موجود استعارات کو سلیس اردو میں ڈھالنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
نوکوں سے مراد میری وہ عادتیں اور حرکتیں تھیں جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہی تھی
نوکیلے اور کھردرے حصے میرے وہ جملے تھے جو میرے ارد گرد موجود افراد کو دکھ پہنچا رہے تھے جہاں میں عدل پر نہ تھا
زلزلہ سوچ میں آتا ہے جس دن انسان اپنے اندر مثبت تبدیلی کا خیال پیدا کرتا ہے
لڑھکنے سے مراد زندگی کے وہ تمام واقعات و لمحات ہیں جہاں ہمیں اپنی نوکوں سے دوسروں کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے
پہاڑ کی بلندی سے نیچے آنے کا مطلب تھا کہ جو انا اور غرور ہمیں خیالی بلندیوں پر بٹھا کر رکھتا ہے وہاں سے اپنی اصل کی طرف نیچے اترنا تھا اور یہ نیچے اترنا ہی اصل بلندی تھی کیونکہ دیکھنا یہ کہ کون اللّٰہ کی بارگاہ میں کتنا بلند ہے، نہ کہ لوگوں کی نظر میں!
گول ہونے سے مراد بے ضرر ہونا ہے، جس سے دوسروں کا دل و جان و مال محفوظ ہو
یہ بیس سال پرانہ واقعہ ہے مگر مجھے آج بھی لگتا ہے جیسے میں ان سے مل کر نیچے اتر رہا ہوں اور ابھی تک کھردرا پتھر ہوں ، زرا سا بھی گول نہیں ۔
تحریر: حسنین ملک