جادوئی مشروب
March 24, 2024
پیاز کے چھلکے
پیاز کے چھلکے
May 20, 2024

خدا کا قہر

بچپن سے سنایا گیا کہ خدا کا قہر بہت سخت ہے اس سے بچ کے رہنا چاہیے بہت سی آفتوں ،بیماریوں اور مصیبتوں کو خدا کا قہر بتا بتا کر خدا کو قہار ثابت کر دیا گیا اور یقین مانیں تو جوانی تک آتے آتے خدا کا قہر اچھا خاصہ ڈراؤنا ہو چکا تھا کہ وہ ایسا قہار ہے اگر وہ غضب میں آجاۓ تو اس کا قہر پوری دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے ۔

پھر یوں ہوا کہ کتابیں پڑھتے پڑھتے ایک دن قہار کی کتاب پڑھنے اور سمجھنے کا شوق ہوا تو اپنے قہار سے محبت ہوتی گئی ۔ آئیے آپ کو اپنی لو سٹوری سناتا ہوں ۔

عربی زبان میں ق ہ ر ایک مادہ ہے جس سے بننے والے الفاظ قہر، قہار، القاہر، قاہرون اور تقہر وغیرہ قرآن میں بھی استعمال ہوۓ ہیں ۔ قہر کا لفظی معنی ہے ایک قانون کا دوسرے قانون پر غالب ہونا۔ جو قانون بڑا ہوگا وہ چھوٹے قانون سے برتر ہوگا اور دونوں کی موجودگی کی صورت میں بڑا قانون غالب ہو جاۓ گا اور ایسے قانون کو قہار کہا جائے گا اور دوسرا قانون کمتر سمجھا جائے گا۔ اسکی ہر طرح کی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ

مثبت مثال دیکھی جاۓ تو فوج میں ہر سپاہی کو چھٹیوں کی اجازت حاصل ہوتی ہے اور وہ پہلے سے اپنے افسر کو بتا دیتے ہیں کہ فلاں مہینے میں مجھے اپنے گاؤں جانا ہے البتہ اس مہینے سے قبل ملک میں کوئی جنگی صورتحال بن جائے تو سب کی چھٹیاں کینسل کر دی جاتی ہیں ۔ ملکی صورتحال انفرادی سپاہی کی چھٹیوں کے قانون پر قہار ہے کیونکہ اس کا تعلق ملکی سالمیت سے ہوتا ہے ۔

آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اگر کسی کو ہائی کورٹ سے سزا ہو جائے تو وہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر سکتا ہے کیونکہ اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ اسکے حق میں دے دیا تو ہائی کورٹ کا فیصلہ بے ضرر ہو جائے گا ۔ پس سپریم کورٹ باقی سب عدالتوں کے موازنہ میں قہار ہے۔

منفی مثال ملاحظہ کریں کہ ہندوستان میں مغلوں کی حکومت اور قانون رائج تھا مگر 1857 کے بعد فرنگی قبضے نے فرنگی قانون کو قہار قرار دیا تاکہ ملک کے تمام فیصلے فرنگی قانون کے مطابق ہوں نہ کہ مغل قانون کے مطابق ۔ یعنی فرنگی قانون مغل قانون پر قہار ثابت ہوا ۔

اب ملاحظہ کیجئے قرآن میں قہر کا استعمال

قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ
فرعون نے جواب دیا میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے۔الاعراف 127
مترجم مودودی

غور کریں فرعون چونکہ صاحب اقتدار ہے تو مصر پر اس کا اور اسکی فوج کا حکم قاہر ہے، یعنی لوگ کیا چاہتے ہیں اس کے بدلے میں یہ دیکھا جائے گا کہ فرعون کیا چاہتا ہے کیونکہ اس کے پاس اختیارات ہیں, وہ غالب ہے اور ترجمہ بھی ایسا ہی کیا گیا کہ “ہمارے اقتدار کی گرفت مضبوط ہے” ۔

پس جب اللہ نے خود کو قہار کہا تو سب بات سمجھ میں آگئی ۔ ہم اللہ کی ایک پسندیدہ مخلوق ہیں اس نے ہمارے لیے آسان اور آزمودہ ترین قانون بنانے تاکہ ہم ہر طرح کی مشقت ، مصیبت اور غلامی سے بچ سکیں ۔ وہ ہمیں کسی کے آگے گھٹنے ٹیکتا، ماتھے رگڑتا ، زلیل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا ۔ اسی محبت کی کیفیت میں اس نے کہا میں قہار ہوں یعنی اس کا قانون دنیا کے سب قوانین سے پہلے اور اوپر ہونا چاہیے اور اس سب کا اللہ کو نہیں بلکہ صرف اور صرف ہمیں فائدہ ہونا تھا ، صرف ہم نے نقصان اور غیر اللہ کی غلامی کی تذلیل سے بچنا تھا ۔ یہ اس قہار کی خالص محبت تھی جو اپنی محبوب مخلوق کو عزت نفس کی مالا پہنا رہی تھی اور میں اسی اللہ کو کیسا ظالم قسم کا قہار سمجھتا تھا جو بیماریاں ، مشکلات اور مصیبتیں نازل کرتا ہے۔

سمجھ آئی تو سب سے پہلے حیرت ہوئی پھر شرمندگی ہوئی اور پھر آنکھیں نمدیدہ ہوگئیں توخوب رویا ۔ رونے سے ظالم والا قہار آنسوؤں میں ہی بہہ گیا، دل سے جب میل اتری تو ایک نہایت محبت والا قہار نظر آیا جس کا قہار قانون مجھے عزت نفس کی دولت ، غلامی سے نجات، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور عمل کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔

اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

تحریر: حسنین ملک