Just two things
Just Two Things
June 29, 2024
Zati soch (Photo Credit: https://www.newtraderu.com/)
ذاتی سوچ
July 20, 2024

جھونپڑی کی نفسیات

Jhonpari ki Nafsiyat

Jhonpari ki Nafsiyat

تین دہائیاں قبل ہمارے ایک دوست اپنا بنگلہ بنا رہے تھے تو ان کے گھر آنا جانا ہوتا رہتا تھا۔ وہ ایک نئی آبادی تھی جس میں زیادہ تر پلاٹ خالی تھے۔ خالی پلاٹوں پر جھونپڑی والوں نے بسیرا کر لیا تھا۔ ہم اکثر اس دوست کے زیرِ تعمیر گھر پر اکٹھے ہو جاتے تھے اور کچھ کھانے پینے کی محفل جما لیتے تھے۔ ان دنوں اکٹھے ہو کر کھانا پینا اور ساتھ ٹیپ ریکارڈر پر میوزک سن لینا ایک بڑی عیاشی تھی۔ جو کھانا ضرورت سے زیادہ ہوتا تھا وہ عقب میں قائم جھونپڑی والوں کو دے دیا جاتا تھا جسے وہ نہایت شکر گزاری کے ساتھ قبول کر لیا کرتے تھے اور ہم تب یہ سمجھتے تھے یہ کوئی بڑی نیکی کا کام ہو رہا ہے۔ یوں میرا ان جھونپڑیوں میں آنا جانا شروع ہوگیا۔

ان کے ہاں صبح بہت جلدی ہوتی تھی، روشنی سے بہت پہلے وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر رفع حاجت سے فارغ ہوجاتے تھے۔ شرم و حیاء کا یہ پیمانہ ہر معاشرے میں ایک جیسا ہے۔ روز صبح تازہ آٹآ گوندھ کر عورتیں اپنے خاوندوں کو مزدوری پر بھیج دیتیں اور بچوں کو کھلا پلا کر ساتھ کام پر لے جاتیں۔ چھوٹی عمر کی بچیاں ماؤں کے ساتھ گھروں کی صفائیاں کرتیں اور اسی عمر کے لڑکے باپ کو مزدوری میں ہاتھ بٹاتے۔

جو جھونپڑی گھر سے زیادہ قریب تھی اس میں بھی ایک ایسا ہی پریوار رہتا تھا۔ عورت کے بچے چھوٹے تھے اس لئے وہ کام پر نہیں جاتی تھی بس اپنے محدود سے گھر اور اسکے اطراف کا خیال رکھتی تھی، کھانا بناتی، بچوں کو سنبھالتی، پانی بھرتی، صفائی کرتی اور خاوند کا خیال رکھتی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی سمجھداری کی جھلک تھی۔ گہری سانولی رنگت میں اس کی آنکھوں کی چمک دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی تھی۔

ایک دفعہ ہم نے آم کھانے کا پروگرام بنایا اور ساتھ دودھ بھی منگوا لیا۔ دودھ بہت زیادہ تھا تو چند آم اور کچھ لٹر دودھ لے کر میں اس جھونپڑی کی طرف لے گیا۔ بچے باہر کھیل رہے تھے اور ان کی ماں جس کو ہم باجی کہتے تھے وہ لکڑیوں سے آگ جلا رہی تھی۔ میں نے اس کو چیزیں پکڑائیں جو اس نے مسکراہٹ کے ساتھ لے لیں اور یہی ان لوگوں کا شکریہ کہنے کا انداز ہوتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چیزوں کو دیکھ کر چمک، چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور دل میں اپنے رب کا شکرانہ تھا کیونکہ ایسا کھانا ان کے لئے من و سلوی سے کم نہیں تھا جو تیار ان کے دامن میں پہنچ جاتا تھا۔ لالچ اور شکرانہ ، دونوں حالتوں میں چیزوں کو دیکھ کر آنکھوں میں چمک آجاتی ہے اس لیے یہ طے کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے کہ چمک کی وجہ لالچ ہے یا شکرانہ ، شاید ان کے مابین کوئی باریک سی لکیر ہوتی ہوگی مگر مجھے پتہ نہیں کہیں اندر سے آواز آتی تھی کہ باجی کی آنکھوں میں شکرانے کی چمک ہے۔

باجی نے فورا دودھ کو ابالنے کے لئے برتن میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا۔ مجھے ایک پلیٹ میں حلوہ ڈال کر دیا اور کہا بھائی لیں (ویسے وہ صرف پنچابی میں گفتگو کرتی تھیں)۔ میں نے کہا اسکو آدھا کر دیں اور کھانا شروع کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ بھی کسی نے ان کو دیا ہوگا اور شاید اس کے پاس اتنا ہی تھا جو اس نے سارا مجھے کھانے کو دے دیا۔ جھونپڑی والے لوگ ہماری طرح آنے والے وقت کی فکر میں اپنے آج کو خراب نہیں کرتے یہ صرف آج میں جیتے ہیں ۔ میں چونکہ کافی عرصے سے وہاں جا رہا تھا اس لئے میں نے ان کو کسی بھی کھانے والی چیز سے انکار کرنا بند کر دیا تھا۔ ایک دفعہ انکار کرنے پر باجی کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے جیسے اسے یہ محسوس ہوا ہو کہ میں ان کا کھانا یا ان کے برتنوں میں نہیں کھانا چاہتا یا پھر ان سے کھانا ہی نہیں چاہتا ۔ اس لئے اب وہ جو بھی دیتیں میں اس میں سے کچھ نہ کچھ کھا لیتا۔

تھوڑی دیر بعد انھوں نے آگ میں سے ایک کوئلہ نکال کر دودھ میں پھینک دیا۔ اب سفید گرم ہوتے دودھ میں ایک کالے رنگ کا کوئلہ عجیب لگ رہا تھا۔ میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا تو باجی نے دودھ کی طرف اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا

ددھ ایناں سونہڑاں اے اینوں نظر ای نہ لگ جاوے
(دودھ اتنا پیارا ہے اس کو نظر نہ لگ جائے)

نہ جانے کیوں تیس سال بعد بھی یہ جملہ، یہ لطیف سا جزبہ، یہ معصوم سی سمجھداری میں بھولنے سے قاصر ہوں۔ ان لوگوں میں عجب مزاج یہ بھی تھا کہ ان کی جو بھی اقدار تھیں، جو بھی پیمانے تھے اطوار تھے، انھیں اپنی اقدار کو کسی کے سامنے بھی کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئلہ دودھ میں تب تک رہتا تھا جب تک باجی اس دودھ کا آخری پیالہ کسی کو نہ دے دیتیں۔ انھیں کوئی خوف نہ تھا کہ اس میں کوئی گندگی ہو سکتی ہے یا جراثیم بھی ہو سکتے ہیں ۔

بھلے وقتوں کی کہانیوں میں کہیں لکھا ہے کہ ہماری دادیاں اور مائیں زمین سے کوئی بھی چیز اٹھا کر بسم اللہ پڑھ کے کھا لیا کرتی تھیں کیونکہ وہ جراثیم سے زیادہ اللہ سے ڈرتی تھیں ۔

یہاں بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔

ا یک دفعہ میں نے باجی کے چھوٹے بیٹے، جو صرف شلوار پہن کر گھوم پھر رہا تھا اور توتلہ بولتا تھا ، میں نے اسے کہا تمھارا ناک دونوں کانوں کے بیچ پھنس گیا ہے ، یہ بات جب بھی میں اپنے خاندان میں چھوٹے بچوں کو کہتا تھا وہ پریشان ہو جاتے تھے ، کچھ اس جھنجھلاہٹ میں رو پڑتے اور اکثر تو اپنے والدین سے جا کر اس پریشانی کا حل بھی پوچھتے اور میں ان کو دیکھ کر خوب محظوظ ہوتا تھا۔

باجی کے بیٹے کو جب یہی کہا تو اس نے صرف دو سیکنڈ کے لیے میری بات پر سوچا اور فورآ بولا

چنگا اے نک تھلے نئ ڈگے گا
(اچھا ہے ناک نیچے نہیں گرے گا)

میں پہلی دفعہ کسے بچے کے ہاتھوں لاجواب ہو چکا تھا۔

امجد اسلام امجد صاحب نے کیا خوب لکھا تھا

جھونپڑی میں ہر ایک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں

ایک دفعہ مغرب سے کچھ وقت پہلے وہاں بیٹھے بیٹھے بادل گرجنے لگ گۓ اور بوندا باندی چل پڑی، مجھ کچھ پریشانی ہوئی کہ ان کی جھونپڑی میں پانی آۓ گا یا چھت ٹپکے گی اور ان کو مسائل کا سامنا ہوگا ۔ میں نے باجی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ بھی میرے چہرے پر پریشانی کو پڑھ رہی تھی، اس نے فورآ بچوں سے کہا چلو کمیزیں اتارو، سب بارش میں نہائیں گے ۔ وہی ہوا، تھوڑی دیر میں طوفانی بارش شروع ہوگئی اور اس کے بچے نہانے اور پانی سے کھیلنے میں مصروف ہوگئے ۔ میں بھی بھاگ کر دوست کے گھر چلا آیا، کافی دیر بادل گرجتے رہے، بارش برستی رہی ، جب بارش رکی تو میں دو بارہ وہاں گیا۔ تب باجی جھونپڑی کے اندر چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی، دوسری چارپائی پر اس کے باقی دو بچے سو رہے تھے ۔غالباً اسکا خاوند انھیں کے ساتھ سوتا ہوگا کیونکہ صرف دو چارپائیاں ہی اندر ممکن تھیں ۔ اور اس کا خاوند قریب بیٹھ کے حقہ پی رہا تھا اور میں بھی اسکے ساتھ نیچے دری پر بیٹھا تھا ۔ باجی پر ہر تھوڑی بعد ایک پانی کا قطرہ چھت سے ٹپک کر گر پڑتا تھا مگر وہ اس پر توجہ نہیں کر رہی تھی۔ کچھ پیغامات دے کر جب میں واپس آنے لگا تو باجی نے حسبِ عادت اٹھنے کی کوشش کی تاکہ مجھے الوداع کرے ،میں نے اشارے سے انھیں منع کیا تو وہ دو بارہ لیٹ گئی ۔ اسکے اٹھ کر بیٹھنے اور لیٹنے کے بیچ میں میری نظر پڑی تو باجی نے اپنی بیٹی کو اپنے بازوؤں اور ٹانگ کے نیچے چھپایا ہوا تھا تاکہ اس پر پانی کے قطرے نہ گریں ۔

یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں پانی آگیا، میں اسی حالت میں گھر تک پہنچا۔ چارل چپلن کی بات یاد آئی کہ مجھے بارش میں بھیگنا بہت پسند ہے کیونکہ اس میں کوئی میرے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ ساری رات پانی کے قطرے اپنی بچی تک نہیں پہنچنے دے گی،یہ ماؤں کو کون سکھاتا ہے ؟ کون اتنی محبت ،اتنا احساس کوٹ کر بھرتا ہے انکے اندر؟ یقیناً ان کو یہ سب کچھ دینے والا خود بھی ایسا ہی ہوگا۔ کسی کو کچھ دینے کے لیے اپنے پاس اس چیز کا ہونا ضروری ہے ، بھلے وہ عزت ہو یا محبت ، قدر ہو یا احساس ۔

کچھ عرصہ بعد وہ لوگ وہاں سے کوچ کر گئے ایک دن پہلے مجھے باجی کے خاوند نے بتا دیا تھا۔ میں پھر بھی اگلے دن وہاں پہنچا ، بلا وجہ اس خالی پلاٹ میں کھڑا رہا جہاں ایک دن پہلے ایک جھونپڑی تھی ،جس میں کچھ لوگ رہتے تھے اور جہاں لوگ رہتے ہوں اسے گھر کہتے ہیں ۔

افتخار عارف صاحب نے لکھا ہے

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

خانہ بدوش جا چکے تھے ، انھوں نے بھی پلٹ کر ضرور دیکھا ہوگا۔ اس جگہ کو جہاں ان کا گھر تھا۔ میں بھی وہاں سے چل پڑا اور نہ جانے کیوں بار بار پلٹ کے دیکھتا رہا۔

ایک دفعہ میں کسی مسئلے کی وجہ سے بہت افسردہ تھا اور کسی کام سے باجی کے پاس گیا۔ اس ذہین خاتون نے پہلے لمحے ہی میری پریشانی کو بھانپ لیا اور پوچھا تو میں نے بتایا کہ کچھ خاص نہیں ہے ۔ اس نے اسرار کیا تو میں نے بات گھمائی کہ کسی سے جھگڑا ہوا ہے اور ہم ناراض ہیں ۔ باجی فورآ بولی

پہلاں رب رسدا اے فیر بندا رسدا
(پہلے رب ناراض ہوتا ہے پھر بندہ ناراض ہوتا ہے)

میرے پوچھنے پر اس نے مجھے مزید سمجھایا کہ ہم کچھ بھی کریں ، غلط برا یا گناہ ، اصل میں پہلے رب ناراض ہوتا ہےاور جب وہ ناراض ہوتا ہے تو بندے کے ارد گرد خود ہی مسائل آجاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کوئی بندہ ہمارے خلاف ہے، کوئی ہمیں نقصان پہنچانا چاہ رہا مگر اصل میں پہلے رب سے تعلقات خراب ہوتے ہیں پھر سب معاملات خراب ہوتے ہیں، چلتی ہوئی دکانوں پر بھی دھندہ بند ہو جاتا ہے ۔رب کو ہم خود ناراض کرتے ہیں اپنی حرکتوں سے تو راضی بھی ہم نے ہی کرنا ہے اپنی حرکتوں سے، جب وہ راضی ہو جاتا ہے تو روٹھے ہوئے لوگ بھی جلدی مان جاتے ہیں، دشمن دوست نہ بھی بنے تو نقصان نہیں پہنچا پاتا، بند دکان کے باہر آکر بھی گاہگ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ وہ ان پڑھ بول رہی تھی اور کائنات کے راز کھول رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

تحریر: حسنین ملک