قرآن بمقابلہ مسلمان
قرآن بمقابلہ مسلمان
October 2, 2019
نیتوں کا دارومدار کس چیز پر ہے؟
نیتوں کا دارومدار کس چیز پر ہے؟
December 30, 2019

جذبوں کا قبرستان

جذبوں کا قبرستان

میں بچپن میں سوچا کرتا تھا کہ ہر چیز جب مر جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معلومات میں اضافہ ہوا کہ انسا ن مرتے ہیں تو دفنائے جاتے ہیں، جلائے جاتے ہیں، جانوروں کے آگے پھینک دیے جاتے ہیں یا مچھلیوں کے آگے ڈال دیے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ مذہبی رسومات ہیں جو مختلف علاقوں میں اپنے اپنے رنگ میں چلی آرہی ہیں۔

جانوروں میں زیادہ تر جانور کسی نہ کسی دوسرے جانور کی خوراک ہیں یا پھر انسانوں کی پس بہت ساروں کو تو اوپر بتائے گئے مختلف مذاہب کے انسان کھا جاتے ہیں صرف اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہم سات ارب کے قریب انسان روزانہ تقریباً 7.28 ارب مچھلیاں مار کر استعمال کرجاتے ہیں۔

مچھلیوں پر تحقیق کے دوران مجھے پتہ چلا کہ سائنسدانوں نے ایک نئی مچھلی کو ڈھونڈ نکالا ہے جسکا اگرپچھلا آدھا جسم بھی کوئی دوسری مچھلی کھا لے اور اگلا حصہ بچ جائے تو وہ کچھ دن بعد دوبارہ مکلمل ہو جاتی ہے، یہ اللہ کی شان ہے بلاشبہ اور اس کو ڈھونڈنے والو ں کو بھی سلام پیش کرنا چاہیے۔ اُس پر مزید تحقیق جاری ہے کہ اُس کے ڈ ی این اے سے ایسی دوائی بنائی جائے جس سے اگر کسی انسان کے جسم کا کوئی حصہ کسی حادثہ میں کٹ جاتا ہے توممکن ہے اس مچھلی کے ڈی این اے سے بنی اِس دوائی سے وہ اصل حصہ ہی دوبارہ خود سے اُگایا جا سکے۔ بجائے پلاسٹک یا لکڑی کی ٹانگیں یا بازو استعمال کرنے سے۔ عجیب لگ رہا ہوگا مگر کوئی بھی تحقیق ایجاد بننے سے پہلے عجیب ہی لگتی ہے۔

پرندوں بیچاروں کا حال بھی اس سے کم بُرا نہیں ہے صرف امریکہ کے اندر ہی ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب پرندے روزانہ ہلاک ہوتے ہیں ان کی سالانہ تعداد تو پانچ ارب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔یہ سب پرندے یا تو انسان کھا جاتے ہیں یا کچھ جانور جن میں پھر اکثریت کو ہم ہی نے کھانا ہوتا ہے۔

حشرات الارض کا اعدادو شمار بھی خاصہ پریشان کن ہے۔ دنیا کے تقریباً دو ارب انسان روزانہ حشرات کھاتے ہیں اور ایک انسان کم سے کم بیس حشرات کھا جاتا ہے۔ اسکو مہینوں اور سالوں پر لے کر جانے سی گِنتی بھولنے لگ جاتی ہے۔

آج سے تقریباً بیس سال پہلے جب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی شعبے میں آیا تو جن چیزوں پر مہارت حاصل ہوئی ان میں سے ایک تھا ہارڈ ڈسک کی مرمت کرنا۔ اصل میں مرمت نہیں تھی مگر جب ہارڈ ڈسک کے اندر کچھ مردہ خلیے بن جاتے تھے تو ہم انکو ایک جگہ اکٹھا کر کے چھپا دیتے تھے اس طرح ہارڈ ڈسک کی باقی جگہ استعمال کے قابل بن جاتی تھی اور کام چلتا رہتا تھا اِس سے مجھے خیال آیا کہ ہارڈ ڈسک کے اندر جب کوئی چیز مر جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے۔

وہ دراصل اسکے اندر ہی رہتی ہے اور اسکو اتنے دور چھپا دیا جاتا ہے کہ وہ باقی زندہ سیکٹرز کو خراب نہیں کرتی نہ نظر آتی

انسان کی وہ خواہشات جو پوری نہیں ہوتی وہ کہا ں جاتی ہیں؟
وہ خواب جو ادھورے رہ جاتے اور پورے ہونے کی سب توقعات دَم توڑ جاتی وہ کہاں جاتے؟
وہ ساری باتیں جو صرف کسی ایک انسان سے صرف کسی خاص وقت میں کرنی ہوتی، نہیں ہو پائی تو کہاں گئیں؟
وہ سارے سوال جنکا جواب نہیں مل سکا اور اب سوال ہی آنا بند ہو گئے وہ کہاں پڑے ہونگے؟
وہ سارے لوگ جنکو ملنے یا پانے کی تمنا رہی ہوگی وہ تمنائیں کہاں ہونگی؟

بس یہی راز کی بات تھی جو ہارڈ ڈسک نے سمجھائی۔

یہ سب کچھ ہمارے دماغ کے اندر ہی ہوتا ہے کسی مردہ خلیے کی طرح۔جو لوگ ان برے سیکٹرز کو الگ نہیں کر پاتے وہ اچھے سیکٹرز بھی تباہ کر لیتے ہیں،وہ خود غرض اور بے حس انسان کی صورت زندگی گزارتے رہتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور آپکو پتہ ہی ہے جو مر جاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں۔

جو دماغ کے اِن برُے اور مردہ سیکٹرز کو ایک الگ خانہ میں ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ بقیہ اچھے سیکٹرز کا استعمال کر کے اپنے آپ کو، اپنے ارد گرد کے ماحول کو، شہر کو، ملک کو یا دنیا کو ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔وہ یا اس وقت دنیا کے امیر ترین آدمیوں کی فہرست میں شامل ہیں یا اللہ کے ولیوں کی۔

یہ برُے سیکٹرز کا الگ خانہ ہی انسانی ناکام تمناؤں اور جذبوں کا قبرستان ہے۔۔۔

تحریر: حسنین ملک