نیتوں کا دارومدار کس چیز پر ہے؟
December 30, 2019Kafiristan’s Muslim: The Tale of communal love, harmony and peace
February 17, 2020
لڑکا اپنی شادی کا کارڈ لے کر آیا اور اپنے گرُو کو پیش کرتے ہوئے بولا
”گُرُو جی میری شادی ہو رہی ہے آپ نے ضرور آنا ہے“
گُرُو نے کارڈ کو ایک نظر دیکھا اور مسکراتے ہوئے پوچھا
”کہاں کر رہے ہو شادی؟ مطلب کس کے ساتھ؟ خاندان میں یا باہر؟“
کر رہا ہوں (Love Marriage) لو میرج ”
یہ کہتے ہوئے اسکے چہرے اور آنکھوں میں عجیب چمک اور خوشی تھی جو عام طور پر محبت کرنے والوں کے چہروں پر نمایاں ہوتی جب ان کے محبوب کا ذکر آئے۔
اچھا گُرُو نے اچھا کا آخری الف بہت لمبا کِیا اور شاگرد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
”تم محبت کرتے ہو یا وہ کرتی ہے“
نوجوان نے فوراً جواب دیا
”دونوں کرتے ہیں گُرُو جی“ چمک اور خوشی برقرار تھی بلکہ چھلک رہی تھی
”اچھا“۔۔۔۔۔”وہ تم سے کیوں محبت کرتی ہے؟“
شاگر د نے ایک لمحے کے لئے سوچا
”کیونکہ میں اُس کو اچھا لگتا ہوں اور میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں“
”بیٹا یہی تو پوچھ رہا ہوں تم اُسے کیوں اچھے لگتے ہو“
اب شاگر د پہلی بار تھوڑا سنجیدہ ہوا اور سوچ میں پڑگیا
”یہ تو سوچنا پڑے گا میں نے کبھی اُس سے اسطرح سے نہیں پوچھا۔۔۔
لیکن گُرُو جی اب تو دونوں کے گھر والے مان گئے ہیں اسی لئے تو شادی کا کارڈ لایا ہوں آپکے لئے“
شاید وہ نوجوان آجکل شادی کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا
”کوشش کرو بارات سے پہلے یہ بات سوچ لو اور ڈھونڈ لو کہ وہ تم سے کیوں محبت کرتی ہے“ گرُو جی نے کہا
”کیا یہ بات اتنی ضروری ہے اب تو شادی کی تیاریاں چل رہی گُرُو جی“
”بیٹا اگرتمھیں اپنی وہ عادت یا بات پتہ چل گئی جس کی وجہ سے وہ تم سے محبت کرتی ہے تو سمجھ لو تمھیں اس رشتے کو نبھانے کا راز مل گیا“
گُرُو جی نے وضاحت فرمائی
”تم نے ساری زندگی بس ایک کام کرنا ہے کہ اپنی اُس عادت کو ختم نہیں ہونے دینا، یہ رشتہ کبھی ماند نہیں پڑے گا نہ کبھی ختم نہیں ہوگا، یہ وہ چابی ہے جس سے تم جب چاہو اُسکے دل کا دروازہ کھول سکتے ہو“
شاگرد کو اب بات کچھ کچھ سمجھ آئی پھر وہ فوراً چونکا
گُرُو جی اگر فرض کریں مجھے وہ بات نہیں سمجھ آتی تو ؟
بیٹا تمھارے لئے اور اس لئے رشتے کے لئے سب سے ضروری شے اُس وجہ کو تلاش کرنا جس سے اُس کو محبت ہے۔ زیادہ تر لوگ تعلقات بنا لیتے ہیں، دوستیاں کر لیتے ہیں، عشق بھی کرتے ہیں اور کچھ شادی بھی۔ ان میں سے جس شخص کو سمجھ آجاتی ہے وہ تواُس خاص عادت یا خوبی کو سنبھال کر رکھتا ہے اور یہی شے انکے تعلق کو بچائے رکھتی ہے۔ جو نہیں جان پاتے وہ انجانے میں کہیں اُس خاص عادت کو یا تو چھوڑ بیٹھتے ہیں یا چھوٹ جاتی ہے یا ان کی نظر میں چونکہ اسکی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اسلئے وہ اس کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہی وہ لمحہ ہوتا جو تعلقات میں ایسا خلاء پیدا کر دیتا ہے جو بڑھتا ہی جاتا ہے کیونکہ دونوں افراد اِس خلاء کی اصل وجہ سے ہی انجان ہوتے ہیں اسلئے نہ چاہتے ہوئے بھی تعلق کو بحال نہیں کر پاتے۔ باقی ساری عادتیں اور کوششیں مل کر بھی اُس ایک وجہ کا نعم البدل نہیں بن سکتی کیونکہ باقی ساری چیزیں اور وجوہات نے اُس تعلق کو جنم ہی نہیں دیا ہوا۔ ہم اُس ایک وجہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور سینکڑوں وجوہات پیداکرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تعلق چل جائے مگر یہ ناممکن ہے اور یوں یا تو یہ تعلق کے ای سی یو مریض کی طرح زندہ رکھا جاتا ہے یا پھر آہستہ آہستہ اپنی موت مر جاتا ہے۔۔۔یہ اصول صرف شادی نہیں بلکہ ہر طرح کے تعلق پر لاگو ہے، دوستی ہو، کاروبار، سفر یا ہمسفر۔۔
گرو جی خاموش ہوئے تو گویا محفل پر سکتہ طاری ہو گیا۔ مجھ سمیت سب افراد اپنے اپنے تعلقات کے بار ے میں سوچ میں پڑ گئے۔کسی کو اپنے حاضر تعلقات کی فکر لاحق ہوئی اور کوئی اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کی وجہ سوچنے میں مصروف تھا۔
بتاتا چلوں کہ یہ گرو جی کوئی راہب، خانقاہی صُوفی، جوتشی یا عامِل نہیں تھے۔ یہ اُس وقت کے صوبہ سرحد کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے کے باوجود دو تین مضامین میں ماسٹرز ڈگری، ایم فِل اور اِتنی ہی پی ایچ ڈیز کر چکے تھے۔ تقریباً آدھی دنیا دیکھ چکے تھے اور اُس وقت بھی پاکستان میں یو او این کے کسی شعبے کے ایڈوائزر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
اِس محفل کے سقوط کو گرو جی نے خود ہی توڑا
”اگر محبت کی شادی نہ بھی ہو تو عورت اور مرد کے تعلق میں بنیادی اجزاء ایک جیسے ہی ہیں بیٹا۔۔۔
سمجھدار عورت جو مرضی کرتی رہے، جس سے مرضی جھگڑ لے،نوکری کرنیوالی ہو یا گھر بیٹھنے والی جب تک وہ مرد کی مردانگی کے پودے کو پانی اور کھاد ڈالتی رہتی ہے مر د باقی ساری باتوں پر سمجھوتہ کر لیتا ہے کیونکہ اُس کو لگتا ہے کہ اُس کی مردانگی سلامت ہے، اُسے لگتا ہے اس کے سر پر پگڑی ہے، جب وہ دفتر میں، بازار میں چلتا ہے یا گھر آتا ہے تو اسے اپنی سرداری محسوس ہوتی ہے اور یہ ایک احساس ہی اُس کو ساری زندگی خوشی خوشی دھکے کھانے پر لگائے رکھتا ہے، وہ اِس عورت کے لئے اپنے بہن بھائیوں، والدین اور باقی سب لوگوں کے بیچ ایک دیوار بن جاتا ہے۔ جس دیوار کے ایک طرف تو ان سب لوگوں کے تیروں اور نیزوں کے نشان ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف صرف ایک مایہ لگے ہوئے سفید لٹھے کی شاندار پگڑی لٹک رہی ہوتی ہے۔۔۔“
تحریر: حسنین ملک