میں نے شاید پہلے بھی لکھا تھا کہ سائیکالوجی کے مطابق عام انسان 75 فیصد دماغ ماضی میں ہونے والے واقعات کو یاد کرنے اور دہرانے میں لگائے رکھتا ہے اور زیادہ تر افراد اس سے آزردگی کے علاؤہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔
اور 20 فیصد دماغ مستقبل کے خیالی پلاؤ پکانے یا مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خطرات کے بارے میں سوچنے پر گزار دیتا ہے۔
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ خوف کسے کہتے ہیں؟
خوف اس صورتحال کو کہتے ہیں جس میں انسان کو مستقبل حال سے برا نظر آۓ۔
عام مثال ہے کہ اگر ایک انسان نوکری کرتا ہے اس سے اپنا گزر بسر کرتا ہے اور اسے اچانک خبر ملے کہ اس کی کمپنی بند ہونے والی ہے تو ایسا انسان معاشی خوف کا شکار ہو جائے گا یعنی اسے نظر آۓ گا کہ جو پیسہ اسے آج مل رہا ہے اور اسکے اخراجات پورے ہو رہے ہیں وہ مستقبل میں میسر نہیں ہوگا۔
دوسری مثال یہ ہے کہ انسان سے ایک سانپ کا سامنا ہو جاتا ہے تو انسان پر خوف کیوں طاری ہو جاتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے یا تو وہ شدید تکلیف میں ہوگا یا مر جائے گا چونکہ وہ ابھی تکلیف میں مرا نہیں ہے اس لیے مستقبل میں کچھ برا ہوتا نظر آرہا ہے اور اسی حالت کو خوف کہتے ہیں۔
دنیا میں وہ افراد جن کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہوتی ہے ان میں سے 80 فیصد افراد سانپ کے زہر کی بجائے اس خوف سے مر جاتے ہیں کہ انھیں سانپ نے ڈس لیا ہے اسی خوف سے ان کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور ان کی موت ایک منٹ کے اندر ہی دل کے بند ہونے کی وجہ سے ہو جاتی ہے جبکہ زہر کو موت تک جانے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ تحقیق تو یہ بھی بتاتی ہے کہ سانپوں کی اکثریت میں اتنا زہر ہی نہیں ہوتا کہ ان سے انسان کی موت واقع ہو سکے مگر انسان ان سانپوں کے ڈسنے سے بھی مر جاتے ہیں کیونکہ وجہ وہی خوف سے دل کا بند ہونا ہے نہ کہ زہر۔
ایک تیسری مثال ماضی سے لے سکتے ہیں جس میں انسان نے اگر ماضی میں کوئی گناہ، چوری یا غلطی کی ہے جو ابھی کسی کو معلوم نہیں تو ایسا انسان بھی خوف کا شکار ہوگا کیونکہ وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اس کا مستقبل اس کے حال سے برا ہو جائے گا۔
سائیکالوجی کی تحقیق بتاتی ہے کہ خوف پر قابو پانے کا سب سے آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ انسان حال میں جینا شروع کرے۔ حال اس حالت کو کہتے ہیں جس میں نہ ماضی ہو نہ مستقبل، صرف حال ہو، حال ایسا حال ہے جس میں نہ ماضی کی تلخ یادیں ہیں اور نہ مستقبل کا کوئی خوف۔
ہم ماضی میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے مگر ماضی ہمارے حال کو بے سکون کر کے تبدیلی لاتا رہتا ہے، اسی طرح جو مستقبل کا خوف ہمیں پریشان رکھتا ہے اس کے بارے میں اول تو یہ یقین ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ رونما ہو گا بھی یا نہیں، اگر رونما ہوگا تو اثر انداز ہوگا یا نہیں اور یہ یقین کہاں سے لایا جائے کہ اس خوفناک مستقبل کے دور میں ہم بھی ہونگے یا نہیں؟
اگر ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا اور مستقبل کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی تو ان چیزوں کے بارے میں فکرمند ہونا صرف ایک خود ساختہ سوچ اور اس سے پیدا ہونے والا خوف ہے یہ خوف انسان کو موت تو نہیں دے پاتا مگر اس انسان میں پیدا ہونے والے مثبت جذبات، موٹیویشن اور خود اعتمادی کی موت ضرور بن جاتا ہے اس سے نجات کا آسان حل یہ کہ جب بھی ایسے خیالات کا وار ہو تو خود کو حال میں واپس لے آئیں اور سوچیں کہ اس وقت آپ کا سب سے ضروری کام کیا ہے، آج آپ کو اور کیا کیا کرنا، دیکھنا، پڑھنا اور سوچنا ہے، اپنے لیے روانہ کے ٹارگٹ طے کریں اور دن کے مختلف فارغ اوقات میں ان چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ کو پورا کریں تاکہ آپ کو فتح کا احساس ہو اور خود اعتمادی بحال ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ماضی اور مستقبل سے پیدا شدہ منفی اثرات کے ابلیس کو حال کے عمل الصالحات سے شکست دیں۔
اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر: حسنین ملک