اخروٹ کو ملاحضہ کریں۔ باہر سے انتہائی سخت اور ہٹ دھرم، اندر سے اتنا ہی نرم اور ذائقہ دار،آپ کو زندگی کے ہر موڑپر اخروٹ مل جائیں گے دفترمیں، کاروبار میں،سکو ل کالج یونیورسٹی میں حتٰی کہ ہر خاندان میں بھی۔ جو مرضی کر لیں آپ انکے چہرے پر ایک مسکراہٹ دیکھنے کو ترس جائیں گے مگر مجال ہے کہ امرود کے درخت پر سیب آجائے۔ جو میٹرک تک سرکاری سکولوں میں پڑھتے رہے ہیں وہ بخوبی واقف ہیں ایسے اخروٹوں سے۔اسی طرح کاغذی اخروٹ بھی ہوتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو باہر سے پوری کوشش کرتے ہیں اصل دیسی اخروٹ جیسی شکل و بناوٹ پر مگر اندر سے نرمی اور منفعت بخشی کو روکنا اِن کے بس کی بات نہیں۔بادام بھی اسی خاندان کا حصہ ہے بس سمجھ لیجئے چھوٹے قد والے اخروٹ کو بادام کہتے ہیں۔میرے ذاتی تجزیے میں ہماری پچھلی نسل کاغذی اخروٹوں اور باداموں سے بھری ہوئی ہے۔
ان کے بالکل مخالف آپکو کھجور نظر آئے گی۔ باہر سے وہ ساری سہولیات اور فائدہ دے گی جو ہر کھانے والا چاہتا ہے مگر غلطی سے آپنے اِسے زیادہ نچوڑنے کی کوشش کر لی تو یہ آپکے دانت توڑ کے رکھ دیگی۔کھجور کے باہر کوئی چھلکا بھی نہیں ہوتا جسے اتارنے کی ضرورت پڑے۔ایسے لوگ فوراً آپ سے مانوس بھی ہو جاتے انھوں نے اپنے ارد گرد کوئی خول نہیں چڑھایا ہوتا۔
آم صاحب کو دیکھئے۔ہلکا سا چھلکا جو اترتا بھی آسانی سے، ڈھیر سارا پھل اور اندر سخت گُٹلی۔ یہ وہ
لوگ ہیں جو گھلنے ملنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ آپ ان سے ڈھیروں گپیں لگا سکتے، یہ ہر وقت پارٹی کرنا
چاہتے، گھومنا پھرنا چاہتے، کھانا پینا پسند کرتے، میرے خیال میں تمام ریسٹورنٹ اور کافی شاپس انہی ”آم“ لوگوں کی وجہ سے آباد ہیں۔ جو ”آم“ خرچ نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے وہ آپکو پارکوں کے اندر نظر آئیں گے کسی دوسرے نسل کے ”آم“ کے ساتھ۔ ملک کی سب سے زیادہ آبادی ”آم“ لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔
کیلا عجیب ہی مخلوق ہے باہر موٹا سا چھلکا ہے مگر بہت آسانی سے اتر جاتااندر نرمی کی انتہا کہ اپنے چبا جانے والے کو بھی مشکل میں نہیں ڈالتا یہ لوگ ہمیشہ فائدہ پہنچانے کے لئے لگے رہتے مگر کبھی بھی کسی کا پسندیدہ انسان نہیں بن پاتے۔ آپ ایسا انسان تلاش کریں جسکا پسندیدہ پھل کیلا ہو یقین کریں وہ اکیلا ہی ایسا ہوگا۔ کیونکہ کیلا بیچارہ سب سے زیادہ تب یاد آتا جب کوئی اور پھل ہمیں ہضم نہ ہو رہا ہواور پھر بھی کسی کا پسندیدہ پھل نہیں بن پاتا۔بچوں اور بوڑھوں کو کیلے بہت پسند، وجہ یہ ہے کہ دونوں کے دانت نہیں ہوتے باقی سب سمجھدارلوگ ہیں جو ان ”کیلوں“ کو صرف حسبِ ضرورت استعمال کرتے ”اکیلے اکیلے“
چلغوزے کی چالاکی جاننے کے لئے خاصی چالاکی چاہیے۔یہ لوگوں کو ذرا سا بھی فائدہ پہنچانے کے لئے بھی نہایت مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ایک پاؤ چلغوزے چھیل کر دیکھیں۔
خوبانی پر غور کیجئے اور اسکے بدلتے ہوئے رنگوں پر بھی۔ایسے لوگ باہر سے بہت خوبصورت نظر آئیں گے، ایسا رنگ ڈھنگ کے پاس آنے کو دل چاہے،زیادہ پاس آجائیں تو اندر ایک نہایت بد نما گُٹلی۔جو اسکو بھی برداشت کر جائے اور توڑنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک تیسرانیا رنگ دیکھنے کو ملے گا جو پہلے دونوں رنگوں سے الگ تھلگ۔
نہ پہلے رنگ پر مر مِٹنے والوں کو دوسرا رنگ سمجھ آتا نو دوسرے رنگ سے ڈرجانے والوں کو تیسرا۔
میرے اللہ نے سارے پھل اور سبزیاں بنائیں مگر قرآن میں صرف انجیر اور زیتون کی قسم کھائی۔ ذائقہ اور
فائدے اپنی جگہ، میں جس چیز پر حیران ہوں وہ یہ کہ دونوں پھل ایک مکمل ذائقہ رکھتے ہیں۔ایک انجیر لیجئے اُسکو
کسی ایک طرف سے کھائیے اور ذائقہ دیکھئے اب یہی ذائقہ آپکو اس انجیر کے باقی ا طراف سے بھی ملے گا۔ یہ
نہیں ممکن انجیر ایک طرف سے میٹھی ہو اور دوسری طرف سے کھٹی یا کم میٹھی۔ایسا ہی حال زیتون کا بھی ہے وہ کڑوا ضرور ہے مگردوغلہ نہیں ہے۔ ہر طرف سے ایک جیسا ہے۔ یہ دونوں پھل اور ان جیسے لوگ چاہے کڑوے ہوں یا میٹھے مگر منافق نہیں ہوتے۔ ہر طرف سے،ہر حال میں، ایک جیسے ہوتے۔
شلجم اتنی شریف سبزی ہے کہ آپ اسکو’شلجم شریف‘ کہہ کر بھی بلا سکتے۔ ہمارے پنجاب میں عام طور پر اسکو پیار سے ”گونگلو“ کہا جاتا۔ یہ سب سے زیادہ لچکدار اور قا بلِ قبول پرسنیلٹی والے افراد ہوتے۔ اس سبزی کو کچا بھی کھا سکتے سلاد کی طرح اور پکا کر بھی، یہ دونوں صورتوں میں فائدہ مند۔ اسکو کاٹ کر کھائیں یا ثابت، دونوں شکلو ں میں مفید۔یہ دوائیوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتا اور بذات ِ خودبھی ایک دوا ہے۔ یہ بلڈ پریشر کنٹرول، کینسر سے لڑائی، وزن میں کمی، ہاضمے میں بہتری اور ڈھیر ساری غذائیت دینے کے باوجود کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے اور ہمیشہ ایک عام سی سبزی کی طرح ہرجگہ پڑا ہو تابلکہ دیہات میں تو اکثر جانوروں کو کھِلا دیا جاتا۔یہی حال شلجم جیسی، لوگوں کو ڈھیروں فائدے دینے والی فطرت کے حامل افراد کا بھی ہے۔ یہ ساری زندگی ہر طرح کے فائدے پہنچا کر بھی بے فائدہ قسم کے انسان سمجھے جاتے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایسے لوگ شادی کی بات چھیڑنے سے لیکر سب کو منانے تک، پھر شادی کی تیاریوں میں آگے بڑھ کرکا م کرنے تک اور پھر سارے انتظامات سنبھالنے کے باوجود، یہ لوگ ولیمہ والے دن کسی ایک کونے میں آخری میز پرانجان لوگوں کے بیچ چپ کر کے اکیلے بیٹھے ہوتے۔ جب کوئی جاننے والا اُنکو دیکھ لیتا تو کہہ دیتا ہے
تم کیوں ’گونگلو جیسی شکل‘ بنا کر بیٹھے ہوئے ہو؟
تحریر: حسنین ملک