البرٹ کیمس نے کہا تھا
میرے دوستو ، میں تمھیں ایک بہت گہرا راز بتانا چاہتا ہوں ، وہ راز یہ ہے کہ آخری فیصلے کے دن کا انتظار مت کرو کیوں کہ فیصلہ روز سنایا جا رہا ہے
قرآن کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے فیض سے میرا بھی یقین کامل ہے کہ فیصلہ روز سنایا جاتا ہے ، انعام روز بانٹے جاتے ہیں اور سزائیں بھی روز جاری کی جاتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ
“میں بہت جلد حساب کر کے فیصلہ کرنے والا ہوں”
جیسے ہمیں دنیا کی تیز ترین کار، ٹرین ، موٹر سائیکل اور تیز ترین انسان کا پتہ ہے اور یقین ہے کہ وہ اپنے اپنے کام دنیا کے باقی تمام افراد اور چیزوں سے پہلے کر لیتے ہیں تو خدا کے اس دعوے پر یقین کیوں نہیں ہوتا؟
یعنی اللہ تعالیٰ فورآ فیصلہ فرمائے گا اور بدلہ پہنچا دیا جائے گا، نہ قطار نہ انتظار ، نہ دعا کی محتاجی نہ عبادات کا مسکہ نہ وظائف کا تکلف نہ اذکار کی رشوت ، نہ امیر و غریب کی تمیز نہ عرب وعجم کا فاصلہ ، صرف عمل اور صرف نتیجہ ، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ فیصلہ روز سنایا جا رہا ہے
کتنا آسان ہے نہ کسی مفتی سے فتویٰ لینے کا محتاج بنایا نہ کسی مولوی سے مشورہ کرنے کا، نہ پیر صاحب کی اجازت درکار ہے نہ مجتہدین کا استفتاء۔
بس ایک طرف بارگاہ الہٰی اور سامنے بندہ ناچیز ، بیچ میں نہ کوئی بندہ نہ کوئی پردہ ، کیا دنیا کا کوئی پیغمبر آپنے ایسا دیکھا، کیا کسی صحابی یا امام کا دعویٰ سنا ہو، لوگوں نے اتنی حدیں پار کر دیں کہ خود کو خدا، تو کبھی نبی اور ولی کا تمغہ پہنانے کی کوشش کی مگر کسی نے آج تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے ۔ دعویٰ کرنے والے کو ثبوت دینا پڑنا تھا اس لیے دعویٰ کرنے کی جرات ہی نہ ہوئی ۔
وہ جمال میں فرماتا ہے تم ایک نیکی کرو میں تمھیں سات، ستر اور سات سو گنا اجر دے دوں گا اور ایک غلطی کرو گے تو ایک ہی غلطی گنوں گا یعنی دیتے وقت بے حساب دے دینا اور لیتے وقت صرف حساب کے مطابق لینا۔ مگر فیصلہ بتا دیا ہے انتظار نہیں کروایا۔ فیصلہ روز سنایا جا رہا ہے
جلال میں فرماتا ہے اگر تم پر میری کسی بات کا، نصیحت کا، بار بار سمجھانے کا، قصوں سے ہدایت دینے کا، جنت کے انعامات کا اور جہنم کی سختیوں کا بھی اثر نہیں ہو رہا تو جاؤ پھر تمھاری رسی ڈھیلی چھوڑ دی ہے، تم نے اپنے دلوں پر مہریں لگوا لی ہیں ، تم نہ سنتے ہو نہ دیکھتے ہو نا عقل سے کام لیتے ہو اس لیے تم جانوروں سے بھی بد تر ہو۔ یہ بھی فیصلہ ہے جو پہلے سے اعلان شدہ ہے ، کسی عدالت کے لگنے کا اور گواہوں کی قسموں کا انتظار نہیں کروایا ، چٹ منگنی پٹ بیاہ ۔ فیصلہ روز سنایا جا رہا ہے
امریکہ میں کالوں کو غلام بنا کر نہایت بدسلوکی کی جاتی تھی ، ان کے پاس تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی ان کو حاصل کرنے کا کوئی حق ۔ پھر ایک انسان اٹھا اس نے اپنی ذاتی جدو جہد سے امریکہ میں کالے گورے کی تمیز ختم کر کے رکھ دی، کہتے ہیں اگر وہ شخص نہ آتا تو آج بھی امریکہ دنیا کی بدترین آبادیوں میں سے ایک ہوتی ۔ اس کا نام مارٹن لوتھر کنگ تھا۔ وہ انسان تھا، عام انسان بس وہ خدا کے راز کو جان گیا، خدا گورے اور کالے کو ایک جیسے خواب دکھاتا ہے ، دونوں کے اعضاء ایک جتنے اور ایک جیسے بناتا ہے دونوں کی رگوں میں سرخ خون دوڑاتا ہے دونوں کو اولاد ، بارش ، ہوا، پانی، آکسیجن , عقل و شعور ،زندگی اور موت بھی دیتا ہے ، کسی کی عمر رنگت کی بنیاد پر نہیں بڑھ سکتی نہ کسی کی عمر غربت کی بنیاد پر کم ہوتی ہے ، وہ جان گیا اور لوگوں تک یہ راز پہنچا گیا۔ اس کا ایک مشہور قول ہے
A justice delayed is a justice denied
جو انصاف دیر سے ملے وہ انصاف نہیں، نا انصافی ہے ۔ انسان ہو کر سمجھ گیا خدا کی تقسیم اور عادت کو، پھر خدا خود خدا ہو کر کیسے دیر کر سکتا ہے ، ہر گز نہیں کیونکہ فیصلہ روز سنایا جا رہا ہے۔
اسی خدا کا کچھ خوف کریں ، لمبے فیصلوں پر یقین انسان میں تبدیلی نہیں پیدا ہونے دیتا ، انسان کو امید لگی رہتی ہے کہ ابھی وقت ہے ، ابھی میں فلاں کام ختم کر لوں پھر لازماً اس کی طرف رخ کروں گا ، پھر لوگوں سے بھی معافی مانگ لوں گا، خدا سے بھی سب بخشوا لوں گا مگر خدا اس سے مدت قبل فیصلہ سنا چکا تھا، مہر لگ چکی تھی، یہ بعد کے فیصلوں والی امید ہی تو مہر ہے جو سچ سامنے ہوتے ہوئے بھی فوری قبول اور اصلاح نہیں کرنے دیتی کیونکہ فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے، فیصلہ کرنے والا انتظار نہیں کر رہا کیونکہ وہ دلوں کے بھید جان کر فیصلہ کرتا ہے اور فوری کرتا ہے ۔
غالباً ایسے ہی کسی شعوری مقام پر پہنچ کر علامہ اقبال نے ہماری رہنمائی کے لیے لکھا تھا کہ
یہ کا ئنات ا بھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تحریر: حسنین ملک