کاظمین الغیظ
October 16, 2024
خلع و طلاق
November 4, 2024

دو رستے ، اک راہی

غور و فکر ایک بیماری ہے , سچ کہوں تو یہ ایک خطرناک ترین بیماری ہے ،وہ جسے کہتے ہیں نا لاعلاج مرض ہے

ہر کوئی آپ کو کہتا ہے غور و فکر کیا کرو، کریدا کرو،ڈھونڈا کرو،سوال کرو،سوالوں کا جواب تلاش کیا کرو۔ جب آپ یہ سب کرتے ہیں تو واقعی حیرت کی ایک نئی دنیا آپ کے سامنے آ جاتی ہے ، آپ کو اچھا لگتا ہے کہ آپ سیکھ رہے ہیں ،سمجھ رہے ہیں اور کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ آپ دوسروں سے مختلف ہو گئے ہیں یہ سرور آگے بڑھنے میں مزید مددگار ثابت ہوتا ہے اور یوں آپ غور و فکر کے دریا میں تیرنے کا مزہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔

یہاں تک آپ کو ہر کوئی صحیح بتاتا ہے اور سب ٹھیک لگتا ہے مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ دریا آگے جاکر ایک پہاڑ سے نیچے کی طرف گرتے ہوئے ایک بہت بڑی آبشار بناتا ہے جو دھماکے سے نیچے چٹانوں پر گرتی ہے اور اپنی اصل سے، اپنے ارد گرد کے ماحول سے، ہر چیز سے کٹ جاتی ہے۔

غور کریں کہ جب ہم غور وفکر نہیں کرتے تو کیا کرتے ہیں ؟ تب ہم اتباع کرتے ہیں ،کسی کی مان لیتے ہیں یا کسی کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتے رہتے ہیں یا اندھی تقلید۔

آسان مثال لیجیے ۔ ہم سب نے کبھی نہ کبھی موبائل فون بدلا ہوگا،جب بھی ہم نیا موبائل لیتے ہیں تو اس میں موجود تمام خصوصیات یعنی فیچرز کو دیکھ بھال کر چیک کرتے ہیں کہ ان کا استعمال کیسے کرنا ہے،کال کیسے کرنی اور موصول کرنی ہے، کون سی رنگ ٹون ہوگی، کیمرہ میں کیا کیا فیچرز ہیں اور ہم ہر چیز پر کلک کر کے دیکھتے ہیں اور ان فیچرز کو چیک کرتے ہیں ۔ اگر کچھ بالکل نہ سمجھ آئے تو کسی سے جانکاری لے لیتے ہیں یا انٹرنیٹ سے مدد ۔ مگر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ عرصہ بعد ہم اسے بغیر دیکھے بھی استعمال کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ چل چکا ہوتا ہے تمام خصوصیات اور ان کے استعمال کے متعلق ۔ اب ہم غور نہیں کرتے بس استعمال کرتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی باقی معاملات میں بھی ہوتا ہے ۔ کچھ چیزیں ہمیں گھر سے، ماحول سے، معاشرے، مذہب اور تعلیم سے بنی بنائی مل جاتی ہیں ،ہمارے بڑے اور ہمارے ارد گرد کے افراد بھی وہی کر رہے ہوتے ہیں اس لیے ہمیں ان پر پرانے موبائل کی طرح غور و فکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔ بھلے اس میں کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو رہا ہو مگر سب کے وہی کچھ کرنے اور اس پر مطمئن ہونے کی وجہ سے ہمارا کبھی اس پر غور کرنے کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا۔

اگر خوش قسمتی سے آپ کو کوئی دوست ،ساتھی یا کتاب سوچنا سکھا دے تو آپ ہر نئی چیز پر اچھی طرح سوچ بچار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر پرانی چیز پر بھی “کیوں”, “کب” اور “کیسے لگانا شروع کر دیں گے ۔ یوں عقل کے پیمانے کے مطابق چیزیں قابل قبول ہوں گی اور اس پیمانے سے نیچے کوئی شے آپ کو متاثر نہیں کر پائے گی بھلے وہ کسی بھی نسبت یا عقیدت سے آئی ہو۔

یہ عادت ایک مائکروسکوپ ہے،جیسے مائکروسکوپ میں جراثیم نظر آسکتے ہیں اور ہم اسے ہر ہر چیز پر لگا کر دیکھیں کہ جو ہم کھا پی رہے ہیں ، جس جس شے کو ہاتھ لگا رہے ہیں ،جہاں بیٹھ اور سو رہے ہیں کہیں وہاں جراثیم تو نہیں ۔ اسی طرح یہ عادت بھی آپ کو ہر عمل، رسم اور عقیدے پر غور و فکر کی مائکروسکوپ لگانے پر مجبور کر دیتی ہے ،پھر کیا ہوتا ہے یہ آپ سمجھ سکتے ہیں ،چونکہ جراثیم ہر جگہ نظر آئیں گے تو ہم نناوے فیصد جگہوں پر ہاتھ لگانے ،بیٹھنے اور چھونے سے پرہیز کریں گے ۔ پھر ہم کہاں جائیں گے ؟

پھر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو نہایت محدود رکھیں گے جیسے

COVID

کے دنوں میں

Quarantine

ہو جاتے تھے۔ یہ غور وفکر کی بیماری بھی انسان کو کونے میں لگا دیتی ہے ۔

آپ نے اکثر سنا یا پڑھا ہوگا کہ

سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے الگ ہوتی ہے
یا
نظریات پر چلنا اکیلا چلنے کے مترادف ہے
یا
حق پر چلنے والے اکیلے چل پڑتے ہیں
یا
مفکر لوگ تنہائی اور خاموشی پسند ہو جاتے ہیں

اب ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ان سب لوگوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ بقول شاعر

دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

اس لیے میرے دوستو!

غور وفکر کی عادت سوچ سمجھ کر ڈالیں , یہ دریا جلد آبشار سے نیچے گرنے والا ہے ،پھر دھماکہ ہوگا اور آپ ہوا میں بخارات کی طرح بکھر جائیں گے اور آپ بے حیثیت ہو جائیں گے اپنے ہی لوگوں ، خاندان اور معاشرے میں ۔

اختیار آپ کے پاس ہے ، راستے دو ہی ہیں ۔ جیسا سورتہ بلد میں ارشاد فرمایا ہے

وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ
ترجمہ: اور ہم نے اسے دونوں راستے واضح کر کے دکھا دیے ہیں

یا تو غور فکر کے لیے سب سے الگ ایک غار حرا تلاش کر لیں یا وہ کرتے رہیں جو ہمارے بڑے کرتے آرہے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

تحریر: حسنین ملک