قرآن کی ورق گردانی میں ہمیں انبیاء کے قصے ملتے ہیں ، ان کے حالات زندگی ، ان کا مشن اور مشن میں پیش آنے والی مشکلات ، ان کو پیش آنے والے مسائل پھر ان کا حل، ان کی مخالفت اور اس مخالفت میں ساتھ دینے والوں اور اس کے مدمقابل کھڑے ہونے والے مگر حیران کن طور پر ایک چیز جو تمام انبیاء کے واقعات میں مشترک نظر آتی ہے وہ ہے خاندان اور خاندانی معاملات ۔
جنابِ نوح کو بیٹے سے مسئلہ درپیش ہے ہے تو جناب ابرہیم کے والد اختلاف کرتے نظر آتے ہیں، جنابِ یعقوب کو بیٹوں کی طرف مسائل کا سامنا ہے، جناب یوسف کو بھائیوں نے دھوکے دیے تو جنابِ لوط کو بیوی نے۔
خاندان کی اس اہمیت کو سمجھنے اور برقرار رکھنے کے لیے سیانوں نے بہت ترکیبیں بنائیں، آپ پنجاب کے گاؤں میں آج بھی دیکھ سکتے ہیں صدیوں سے چلا آرہا رواج، شادی شدہ عورت اپنے خاوند کا نام نہیں لیتی بلکہ بیٹے یا بیٹی کے والد کے طور پر پکارتی ہے جیسا کہ
ارشد دے ابو (ارشد کے ابا)
باپ بھی اپنی بیوی کو “مریم دی امی” کہہ کر بلاتا ہے ۔
باپ جب بھی سنتا ہے کہ وہ ارشد کا باپ ہے تو اسے اپنے بیٹے کی محبت ،ضرورت اور اپنائیت یاد رہتی ہے ، یہ کنیت اسے اولاد کی محبت کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری نبھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ ہر وقت یاد کراتا رہتا ہے کہ آپ کسی کے بچے یا بچی کے باپ بھی ہیں ۔
عربوں میں کنیت کا رواج بھی اسی اصول کی عکاسی کرتا ہے جیسا کہ
ابولقاسم – قاسم کا باپ
ابو حنیفہ – حنیفہ کا باپ
ام کلثوم – کلثوم کی ماں
یہ سب کنیتیں خاندان سے قربت ، محبت اور احساسِ ذمہ داری نبھانے میں نفسیاتی طور پر قلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔ عربوں نے کنیت کے اس اصول کو مزید بہتر استعمال کرتے ہوئے اسے اولاد کے ساتھ ساتھ ولدیت یا آباؤ اجداد کے ساتھ بھی منسلک کیا تاکہ اگر ان کے بڑوں میں کوئی صاحبِ بصیرت یا صاحب وصف انسان گذرا ہو تو اولاد اس کا مان قائم رکھے اور اس کو آگے بڑھاتی رہے جیسا کہ
بنی ہاشم – ہاشم کی اولاد
اب کوئی بھی انسان جب اپنے نام کے ساتھ بنی ہاشم لگاتا ہوگا یا لوگ اسکو پکارتے وقت بنو ہاشم کہتے ہوں گے تو یہ اس شخص کو یاد دہانی ہوتی ہوگی کہ میں ہاشم کی اولاد میں سے ہوں ۔
جناب ہاشم کا اصل نام عمرو تھا اور یہ مکہ کے مشہور تاجر تھے۔ ان کی خصوصیات تو بہت بیان کی گئی ہیں مگر دو خصوصیات کا ذکر کرنا نہایت اہم ہے ، پہلی یہ کہ ہاشم ایک نہایت درد مند اور سچے انسان تھے ۔ یہ جو کچھ گھر میں کھاتے وہی دوسروں میں بانٹنے کے شوقین تھے، بتایا جاتا ہے کہ ہر وقت کا کھانا بناتے وقت اپنے اہل علاقہ کے ضرورت مند افراد کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدار بنائی جاتی تھی، اسی میں سے خود بھی کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے ۔
دوسری اہم خوبی تھی تجارت کی سمجھ بوجھ اور مہارت ، انھوں نے اس دور میں بازنطینی سلطنت کے سربراہ اور کاروباری افراد کے ساتھ معاہدے طے کیے جس کی وجہ سے بازنطینی قافلے مکہ آنا شروع ہوئے اور مکہ کے تجارتی قافلے بازنطینی علاقوں میں جانا۔ اس سے تجارت کو فروغ ملا اور عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی پیدا ہونی شروع ہوئی ۔
اسی طرح کی دیگر خصوصیات کے ساتھ ہاشم نمایاں رہے اور ان کے جانے کے بعد ان کی نسل نہایت فخر سے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لگاتی رہی ۔ یہ فخر انھیں ممتاز کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق ،کردار اور فہم کے معیار پر قائم کرنے کا بھی پابند ہوتا تھا۔
پس خاندان سے انسیت ،منسلک رہنا اور اس مقصد کے لیے ہر طرح کی کنیت کا استعمال اکثر قوموں کا وطیرہ رہا ہے ۔ ایک اور نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو دنیا میں صرف دو طرح کے افراد سے سامنا ہوتا ہے ایک ہمارے قریبی رشتے اور دوسرے ہمارے دور کے رشتے ، ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے کچھ نسل قبل جا کر ہمارا رشتہ دار ہی تو ہے ۔
اکثر سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں جس میں ایک چڑیا اپنے گھونسلے کے باہر ایک سانپ سے لڑجاتی ہے اور اسے اپنے بچوں تک رسائی نہیں دیتی یا کہیں ایک ہرن اپنے نومولود بچے کو بچانے کے لیے چیتے پر حملہ آور ہو جاتی ہے ۔ غور کیا جائے تو ان تمام ویڈیوز میں ایک چیز مشترک ہے کہ یہ چڑیا یا ہرن صرف اپنے اپنے گھونسلوں اور بچوں کے لیے لڑتی ہیں ،کبھی کوئی چڑیا کسی دوسرے گھونسلے کے لیے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالتی ۔ پس فطرت کے ان قوانین سے سمجھ یہ آتا ہے کہ اپنے خاندان کی کفالت یا حفاظت کے لیے تو جانور بھی کھڑے ہو جاتے ہیں ، یہ اعزاز فقط حضرت انسان کو حاصل ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق اور حفاظت کے لیے بھی لڑجاتا ہے ۔
یا پھر ایسا کہا جائے کہ جو اپنے ساتھ دوسروں کے لیے صاحب احساس و عمل ہو جائے وہی انسان کے معیار پر پورا اترتا ہے اور باقی سب۔۔۔
میاں محمد بخش صاحب نے سیف الملوک میں لکھا تھا
جس دل اندر درد نہ رکھیا کتے اس تھیں چنگے مالک دے گھر راکھی کردے صابر پکھے ننگے
(جس کے دل میں دوسروں کے لیے درد کا احساس نہ ہو اس سے تو کتے بہتر ہیں جو اپنے مالک کے گھر کی مسلسل حفاظت کرتے ہیں بھلے وہ بھوکے ہی کیوں نہ ہوں یعنی انسان کا پیٹ بھرا ہوا بھی ہو تو وہ احساس نہیں کرتا)
حیرت ہے کہ قرآن کی ایک آیت بھی کچھ ایسی ہی رہنمائی کرتی نظر آتی ہے
لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ
ان کے دل ہیں مگر سوچتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور کانوں سے سننا نہیں چاہتے بالکل جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے
الاعراف 179
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر: حسنین ملک