دو رستے ، اک راہی
October 23, 2024خدا سے ملاقات
November 18, 2024
یہ لفظ سنتے ہی ہمارے دماغوں ایک خاص صورت حال آ جاتی ہے جس میں نناوے فیصد مرد ہمارے ہاں اپنی بیوی کو کسی دوسری عورت کی وجہ سے ، اپنے گھر والوں کے دباؤ کی وجہ سے ، اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یا بار بار کی ناچاقی کی وجہ سے الگ کردیتے ہیں اور ایک فیصد سے بھی کم عورتیں اپنے خاوند سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتی ہے جس کی وجوہات میں کوئی دوسرا مرد، پہلے مرد سے روزمرہ کی ناچاقی یا سسرال والوں کا برتاو ہوتا ہے ۔
عجب بات یہ ہے کہ مرد طلاق دے دے تو عورت پر سوال اٹھتے ہیں اور اس کے خاندان والے اپنی لڑکیوں کو اس عورت سے دور رہنے کو کہنا شروع ہو جاتے ہیں مگر آج تک کسی نے اپنے بیٹے کو منع نہیں کیا کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس سے زرا دور رہنا. ہمیں اپنے معاشرے کے اس دوغلے رویے پر نہایت شدید غور وفکر کی ضرورت ہے ۔
دوسری جانب عورت خلع لے لیتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ کسی نے معاشرے کے بنائے ہوئے مصنوعی رکھ رکھاؤ کے غبارے میں ایک سوئی لگا کر دھماکا کر دیا ہو اور یکایک سارا معاشرہ اپنے ذاتی اختلافات بھول کر اتفاق رائے کے ساتھ اس عورت کو غلط ثابت کرنے پر تل جاتا ہے کیونکہ یہی واحد ذریعہ ہے اس فرسودہ نظام کو درست تصور کرنے کی خوش فہمی میں رہنے کا۔
میرے بھائیو!
طلاق سے بچنے کے دو ہی سادہ سے طریقے ہیں ، پہلا تو یہ ہے کہ آپ شادی ہی نہ کریں اور دوسرا یہ ہے کہ خاموشی سے سمجھوتہ کرنا سیکھیں۔ کبھی طلاق نہیں ہوگی ۔
میری بہنوں!
خلع سے بچنے کے بھی دو ہی طریقے ہیں ،پہلا یہ کہ سارے پیمانے شادی سے پہلے لگا کر دیکھ لیں اور ایک شے بھی معیار کے مطابق نہ ہو تو انکار کرنے کی ہمت پیدا کریں اور دوسرا ہے سمجھوتہ ۔ کبھی خلع نہیں لینی پڑےگی ۔ یقین جانیے گا شادی سے پہلے انکار کرنے کے لیے کم ہمت اور تکلیف ہوگی بنسبت شادی کے بعد خلع کے مقابلے میں ۔
ہمارے معاشرے میں طلاق پر تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شادی کے بعد کچھ ایسی چیزوں یا معاملات کا سامنے آجانا جو ہمیں شادی سے پہلے معلوم نہ تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہماری شادی گن پوائنٹ پر نہیں ہوئی جو کہ واقعی نہیں ہوئی تو پھر ہمیں وہ سب معلوم کیوں نہ تھا؟
اس کی بھی دو وجوہات سامنے آتی ہیں ،پہلی یہ کہ ہم قومی طور پر جھوٹے ہیں تو رشتوں کے معاملات میں بھی رج کے جھوٹ بولتے ہیں اس لیے کبھی سامنے والوں کو ان حقائق سے آگاہ نہیں کرتے جو بعد میں رشتہ ختم ہونے کا باعث بنتے ہیں اور دوسری غلطی سامنے والے کرتے ہیں جو ان حقائق تک پہنچنے کی تگ ودو ہی نہیں کرتے۔ بھرم ،شرم، لحاظ کے پردے میں اپنی کاہلی کو چھپا کر لڑکیوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی جاتی ہیں ۔
شادی، خلع و طلاق کے متعلق کچھ ایسے حقائق ہیں جو ہمیں اس موضوع کو مزید تفصیل سے سمجھنے اور پر غور کرنے کا مواد مہیا کرتے ہیں جیسا کہ:
پاکستان میں زیادہ تر طلاق دینے والے مرد جلد از جلد دوسری شادی کر لیتے ہیں مگر زیادہ تر خلع لینے والی عورتیں کبھی دوسری شادی نہیں کرتیں ۔
عورتوں کے دوسری شادی نہ کرنے کی سب سے بڑی یہ وجہ یہ ہے کہ طلاق یا خلع کے بعد بچے عورت کے ہاتھ تھما دیے جاتے ہیں ،عورتیں بھی صدیوں کی استحصالی کے بعد یہ مان چکی ہیں کہ شاید بچے انھیں کی زمہ داری ہیں اور وہ ساتھ رکھ لیتی ہیں اور یوں جس ملک میں کنواریوں کی شادی کے بیش بہا مسائل ہوں وہاں ایک طلاق یافتہ اور بچوں والی کی شادی ہونے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ المیہ ہے کہ یہ تمام واقعات وہاں ہو رہے ہیں جہاں کا مذہب اور ملکی قانون دونوں ہی بچوں کی زمہ داری عورت پر نہیں ڈالتے مگر یہاں بھی رواج مذہب اور قانون پر ہاوی نظر آتا ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق جس شادی پر ضرورت اور حیثیت سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے اس میں طلاق کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
67 فیصد طلاق و خلع میں صرف ایک طرف کی مرضی ہوتی ہے دوسری جانب سے ایسا کوئی ارادہ شامل نہیں ہوتا.
طلاق یافتہ جوڑوں پر تحقیق کرنے اور ان سے بات کرنے پر تعلق ختم ہونے کی وجوہات سامنے لائ گئیں تو ان میں سے نفسیاتی طور پر سب سے بڑی وجہ تھی غیر مطابقت ۔ یعنی ایک دوسرے کے مطابق نہ ہونا۔ عجیب بات ہے کہ دولوگ ایک دوسرے کے مطابق نہیں تھے تو ان کی شادی کیوں ہوئی ۔ اگر گھر والوں نے کی تو انھوں نے کیوں نہیں غور کیا اور اگر جوڑے نے اپنی مرضی سے کی تھی تو انھوں نے کیوں نہیں جانا۔ مزید بات کرنے سے پتا چلتا ہے کہ گھر والے اور جوڑے ،دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ وہ اچھی طرح دیکھ بھال کر چکے تھے۔ یہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت تھا کہ دونوں کو اس پرکھ کا کوئی علم نہیں، نہ گھر والوں کو نہ خود جوڑوں کو۔
گھر والوں سے یا جوڑوں سے پوچھا جائے کہ جب آپ بیمار ہوتے ہیں تو کہاں جاتے ہیں ؟ جب آپ سنگھار کرنا ہو تو کہاں سے کرواتے ہیں ؟ جوتے کون گانٹھ کے دیتا ہے اور جب ہم ریاضی میں کمزور ہوں تو ریاضی کے استاد کے پاس جاتے ہیں یا بائیولوجی کے ؟ یہاں سب کو معلوم ہے کیا کرنا اور ہم سب اسی مسئلے اور موضوع کے ماہر کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں ۔ پھر شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے وقت یہ کام کیوں نہیں کرتے ؟
شادی میں مطابقت مندرجہ ذیل چیزوں میں ہوتی ہے
ذاتی و سماجی معاملات
خاندانی معاملات
مالی معاملات
جسمانی معاملات
پہلے دونوں نکات آپ کسی بھی نفسیاتی ماہر سے پوچھ سکتے ہیں وہ ایک سے دو دن میں آپ کو جوڑے اور ان کے گھر والوں کی تمام مطابقت سے اگاہ کر دے گا۔
مالی معاملات ماہر معاشیات ہمیں نہایت آسانی سے بتا سکتے ہیں اور آئندہ آنے والی زندگی کا واضح نقشہ بنا کر دے سکتے ہیں جس کو دیکھنے کے بعد دونوں فریقوں کو فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی۔
جسمانی معاملات کے لیے سادہ سا میڈیکل ٹیسٹ ہے جو دونوں گھرانے اپنے بچوں کے کروا کر پیش کر دیں جس سے ایک تو بیماریوں کا پہلے سے علم اور سدباب ہو سکے گا اور دوسرا جسمانی مطابقت نناوے فیصد تک جانچی جا سکتی ہے ۔
اصولاً یہ کام حکومت کو لازم کر دینا چاہیے مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک ہم سب مل کر ان اقدامات سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں گھروں کو خراب ہونے ، ٹوٹنے اور ان کے بچوں کو بے آسرا ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔
پورے پاکستان کے اعداد وشمار تو میسر نہیں مگر آپ صرف کراچی شہر سے اندازہ لگا لیجئے کہ فقط 2020 کے اندر 15 ہزار طلاق کے کیس سامنے آئے اور اب تک 35 فیصد تک طلاق کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے ۔
ہمارے چھوٹی سی کوشش اور اصلاح اس پورے نظام کو بدل سکتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تحریر: حسنین ملک