سکون کیا ہے؟
September 3, 2023Pokhara — A Bouquet of Water
September 16, 2023
سر! مجھے ہر کوئی کہتا ہے میرا دماغ خراب ہے، میں پاگل ہوں، تم مرو گی تو ہماری جان چھوٹے گی۔ کیا واقعی میرا کوئی علاج نہیں ہے؟
سوال سن کر مجھے افسوس ہوا کہ ہم کیسے انسان ہو گئے ہیں، کیسے ہم کسی انسان کی تذلیل کرکے خود کو اچھا محسوس کروا سکتے ہیں، کیسے نیند آجاتی ہے ہمیں اتنی بڑی بڑی باتیں بول کر، خیر میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نے ہر مرض کی شفا بنائی ہے بس صحیح تشخیص اور صحیح علاج کی ضرورت ہے۔ آپ بھی تو علاج کے لیے سائکاٹرسٹ کے پاس جا رہی ہو، اللہ کرم فرمائے گا۔
اللہ کرم فرمائے گا” اس نے میرا جملہ دہرایا، بے یقینی کی حالت میں اور بولی
“سر! خود کشی کی اجازت کس کس صورت حال میں ہے؟”
اس سوال کا جواب دینے کے لیے مجھے سوچنا پڑا، اگرچہ جواب مجھے معلوم تھا اور فورآ دیا بھی جا سکتا تھا مگر سوال کرنے والے کی حالت کو سامنے رکھنا ضروری تھا، ایسا جواب نہیں دینا تھا کہ وہ فون بند کرتے ہی خود کشی کر لے۔
اس کی کال کا آغاز ہی دھماکے دار تھا، اس نے دعا سلام کے بعد پہلی بات ہی یہ کہی
سر کیا موت کا کوئی ذائقہ ہوتا ہے؟ یہ جو قرآن میں لکھا ہے کہ ‘قل نفس ذائقہ الموت’ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے
بیٹا، ذائقہ ایک سائنسی عمل ہے، سائنس کے مطابق ایک ہی چیز کا ذائقہ ہر انسان کی زبان پر سو فیصد ایک جیسا ہونا تقریباً نا ممکن ہے، اسی سائنس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے موت کو بھی ذائقہ کہا ہے کیونکہ اس میں سے گزرنے کا جسمانی اور عقلی تجربہ ہر انسان کا مختلف ہوگا
سر! اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مرنے کے بعد کوئی اگلی زندگی ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ آج تک کسی نے دیکھا نہیں جو دیکھتا ہے وہ بتانے واپس نہیں آیا
دیکھو بیٹا آپ پیدا ہونے سے پہلے 9 ماہ تک ماں کے پیٹ میں تھی، آپ سن سکتی تھی، محسوس کر سکتی تھی، آپ کا دل دھڑکتا تھا، آپ ہاتھ پاؤں مارتی تھی اندر، ایک دو دن نہیں، 9 ماہ مگر آپ کو ایک لمحہ بھی یاد نہیں، پس ایک زندگی آپ خود گزار کر آئی ہو اور آپ کو یاد نہیں ہے پھر بھی یقین ہے کہ ایسی ایک زندگی موجود بھی ہے اور آپ نے خود گزاری بھی ہے تو اسی طرح آگے والی زندگی بھی ہے کیونکہ جس خالق کائنات نے ہمیں ان پچھلی دو زندگیوں کے بارے میں بتایا ہے اسی خالق نے اگلی زندگی کا وعدہ بھی کیا ہے
سر! اگر میں کسی کے بغیر نہیں رہ سکتی اور وہ اب میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو میں کیا کروں؟
جب انسان اس حالت میں خود کو لے جاتا ہے کہ کسی کے بغیر رہ نہ سکتا ہو اور یہ بات اس شخص کو معلوم بھی ہو تو پھر آپ کچھ نہیں کر سکتے، پھر تو وہ کرے گا جس کو آپ نے اتنا بڑا ہتھیار تھما دیا ہے اب اگر وہ اچھا انسان ہے تو اتنے بڑے اختیار کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا اور وہ اچھا انسان نہیں ہے تو پھر وہ اس اختیار کو ہتھیار بنا کر آپ کا استحصال کرتا رہے گا
ہاں سر، آپ نے ٹھیک کہا میرا تو کافی عرصے سے استحصال ہوتا رہا ہے اور میں آنکھیں بند کر کے وقت گزار رہی تھی کہ شاید سب کچھ ٹھیک ہو جائے مگر۔۔۔۔
اس کی طرف سے کچھ دیر خاموشی رہی پھر وہ بولی
سر ملک کے حالات کیوں بہتر نہیں ہو رہے، کیوں ہمارے حکمران اتنے کرپٹ ہیں اور عوام کی زبوں حالی ان کو نظر کیوں نہیں آتی، سیاستدان کب سدھریں گے؟
اس بیچاری کی ذہنی حالت ایسی ہی تھی جس کی وجہ سے لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے، اب وہ اپنی زندگی کے اہم ترین موضوع پر بات کرتے کرتے اچانک ملکی حالات کی جانب چلی گئی مگر مجھے معلوم تھا ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتی تھی، سائیکالوجی کے مطابق ذہنی انتشار میں ایک ایسی حالت ہو جاتی ہے جس سے انسانی دماغ میں خیالات بے ترتیبی سے نمودار ہوتے ہیں اور انسان خود بھی یاد نہیں رکھ پاتا کہ وہ کس موضوع پر بات کر رہا تھا۔ سائیکالوجی پڑھنے پڑھانے والے لوگ اسے
Dissociative Amnesia
کہتے ہیں ۔ خیر میں نے جواب دیا تاکہ وہ موضوع پر خود ہی واپس آ جائے ۔
بیٹا میں اس عمومی سیاست پر گفتگو نہیں کرتا ہوتا
سر! جس سے بھی مشورہ کیا یا بات کی ہے وہ کہتا ہے پریشان مت ہو، ٹینشن نہ لو اللّٰہ بہتر کرے گا ، اللہ نے کچھ بہتر کرنا ہوتا تو آج میں اس حالت میں نہ ہوتی، مجھے نہ بہتری کی کوئی امید رہ گئی ہے اور زندہ رہنے کا شوق، میرے ساتھ تو اللہ نے بھی اچھا نہیں کیا یہ کہتے ہوئے وہ ہنس پڑی، ایسی ہنسی جسے انسان ہونٹوں سے تو ہنستا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوتے ہیں۔
بیٹا اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا، ہاں لوگ اپنے ساتھ خود زیادتی کرتے ہیں اور پھر اس زیادتی کا مکافات ان تک پہنچتا ہے
ہاہاہا۔۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے اللہ جو مرضی کر لے تو قصور بندے کا ہے اور بندہ جب تنگ آکر کچھ کرے تو وہ بھی بندے کا قصور ہے، ویسے سر میرا بندہ بھی اللہ جیسا ہے وہ بھی ایسا ہی سو چتا ہے
مجھے اس کی بات سن کر تکلیف ہوئی، میرا دل چاہا کہ میں اس کے الفاظ اور ایمان کی اصلاح کروں مگر شاید یہ موقع مناسب نہیں تھا، بقول واصف علی واصف صاحب کسی کی مدد کرتے وقت اس کا عقیدہ نہیں پوچھا کرتے۔ میں نے کسی اور انداز سے سمجھانے کی کوشش کی۔
آپ تحمل سے سوچو کہ جس انسان کی وجہ سے آج آپکی یہ حالت ہے کہ آپ کا جینے کو دل نہیں کر رہا اور آپ کو اللہ کی رحمت پر شک ہو رہا ہے وہ انسان بھی آپ کا ہی انتخاب تھا، کسی بھی مسئلے کی تہہ تک جاننے کی کوشش کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اصل قصور انسان کا اپنا ہی ہوتا ہے، جو لوگ ہمارا نقصان کر جاتے ہیں وہ یا تو ہمارا ہی انتخاب ہوتے ہیں یا ہماری بلاوجہ خاموشیوں کی سزا۔
سر میں یہی تو کہہ رہی ہوں کہ اللہ کا تو کوئی قصور بننا نہیں کسی بھی صورت نہ میرے بندے کا، آخر میں، میں ہی مجرم نکلوں گی اور سزا صرف مجرم کو ہی ملنی چاہیے. سر ! خود کشی کی اجازت کس کس صورت حال میں ہے؟
بیٹا اللہ نہ کرے کہیں عورت کی عزت کو خطرہ ہو یا یقین کامل ہو کہ دشمن کے ہاتھوں بہت اذیت ناک موت واقع ہونے والی ہے تو ایسی صورتحال میں ہی گنجائش نکل سکتی ہے ورنہ حد درجہ انسان کو کوشش کرنی چاہیے ایسی صورتحال سے نکلنے کی بھی اور اس فعل سے بچنے کی بھی۔
وہ میری بات سن کر کچھ دیر خاموش ہو گئی، میں منتظر رہا کہ وہ کچھ بولے گی، کافی دیر تک آواز نہیں آئی۔ میں نے دو بار وقفے سے موبائل کی سکرین دیکھی تو کال ابھی تک جاری تھی۔
کیا آپ لائن پر ہو؟
“جی سر میں لائن پر ہوں”
یہ کہہ کر وہ ہنسی اور اس نے فون منقطع کر دیا۔ مجھے گمان ہوا کہ کہیں وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔ اصل میں پرانے مذاہب خود کشی کو مذہبی جرم قرار دیتے رہے ہیں جس کے باعث عوام اس فعل کے بارے میں نہ بات کرتی ہے نہ ان کے بڑے ان کو بتاتے ہیں۔ ہم سب یہ سوچ کر کچھ سوچتے ہی نہیں ہیں کہ یہ حرام ہے۔ تھوڑا سا سوچنے، غور و فکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر جینے کا خواہشمند ہے، مرنے کا نہیں، انسان کو مرنا بالکل پسند نہیں ہے اسے ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ مر گیا تو اس کی پسندیدہ فلم اچانک یہیں ختم ہو جائے گی، سب رنگینیاں یہیں رہ جائیں گی اور بس اس اکیلے کو باہر نکال دیا جائے گا، اسے لگتا ہے ابھی بہت سے کام ہیں جو اسے کرنے، کروانے اور دیکھنے ہیں ابھی وہ کیسے مر سکتا ہے۔ پس انسان کو مرنا پسند نہیں ہے تو پھر کوئی خود سے کیوں مرنا چاہے گا، جو خود کو مارلیتا ہے وہ اس بے گناہ کی طرح ہے جسے جلاد کے ہاتھوں پھانسی دے دی جاتی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ خود کشی کرنے والا اپنا جلاد بھی خود بن جاتا ہے۔ کسی بے گناہ کو پھانسی کے پھندے تک لانے والے بہت سے افراد ہوتے ہیں جو اپنی اپنی جان بچانے، مال بچانے، ظاہری عزت یا وقت بچانے کے چکروں میں کسی بے گناہ کو بلی چڑھا دیتے ہیں۔ خود کشی کرنے والے کے پیچھے بھی بہت سے خاموش قاتل ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی تو اپنی زمہ داری نہیں نبھا رہا ہوتا اور کوئی اسے اپنی زمہ داری سمجھتا ہی نہیں ہے۔ کسی کے پاس خود کشی کرنے والے کو سنانے کے لیے صرف طعنے اور تکلیف دہ جملے ہوتے ہیں اور کسی کے پاس اسے سننے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ الغرض خودکشی کرنے والا اگر دماغی امراض کا شکار نہیں تو حالات کا شکار ضرور ہوتا ہے اور حالات ہمیشہ ارد گرد کے افراد سے پیدا ہوتے ہیں۔ سائیکالوجی کے مطابق ہر نشہ کرنے والا انسان بھی خود کشی کر رہا ہوتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نشہ اسے چند سالوں میں ختم کردے گا مگر وہ پھر بھی جاری رکھتا ہے۔
مجھے کچھ خدشہ محسوس ہوا، میں نے اس کے بھائی کو کال ملائی تو نمبر بند جا رہا تھا۔ پھر اس کی بڑی بہن کو کال ملائی تو کافی دیر تک کرونا کی معلومات والی آڈیو چلتی رہی مگر کال نہیں لی اس نے۔ تیسری کال میں نے اس کی ایک قریبی دوست کو ملائی تو اس سے بات ہو گئی۔ میں نے جب مریضہ کی حالت بیان کی تو کہنے لگی مجھ سے بہتر اسے کوئی نہیں جانتا پندرہ سالوں کا تعلق ہے ہمارا، وہ صرف ڈرامے کرتی ہے اوور ایکٹنگ کرتی ہے ہمدردیاں لینے کے لیے، سر قسم اٹھوا لیں اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے اسے سب کی توجہ چاہیے سب اسی کی باتیں کریں اور بس اسی کی بات مانیں، اب کسی کو بھی اس کی باتوں پر یقین نہیں رہا، میری سمجھ سے باہر آپ کیسے اس پاگل، سائیکو کیس کو برداشت کرتے ہیں۔ خدا حافظ
اگلے دن ایک سرکاری ہسپتال کے کمرہ انتظار سے اس کی بہن نے مجھے کال بیک کی، ضروری سلام دعا کے بعد آخری اہم الفاظ یوں تھے
اس کا دماغ خراب ہے، وہ پاگل ہے، وہ مرے گی تو ہماری جان چھوٹے گی۔ اسکا کوئی علاج نہیں ہے اور آپ کو پہلے بھی کہا تھا خدا کے واسطے اس کی باتوں میں نہ آیا کریں، آپ سن لیتے ہیں اور ہم سب کو برا بنا دیتے ہیں، خدا حافظ
خدا ہی حافظ
تحریر: حسنین ملک