سکون کیا ہے ؟
ہمارے ہاں آرام اور سکون عمومی طور پر یکساں معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر حقیقت قدرے مختلف ہے۔
آرام کا لفظ جسمانی اور ظاہری سہولیات کے رد عمل کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں بڑاگھر، بڑی گاڑی اور زیادہ ساری دولت کو سکون پانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ان چیزوں کا سکون سے کوئی واسطہ نہیں، یہ سب چیزیں جسمانی آرام کے لئے ہیں۔ اس کی ایک آسان مثال گھر میں لگا ایئر کنڈیشنر ہے جو ہمیں شدید گرمی کے موسم میں ٹھنڈک مہیا کرتا ہے، یہ ٹھنڈک جسمانی آرام تو مہیا کر سکتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ایئر کنڈیشنر والے کمرے میں بیٹھا انسان سکون کی حالت میں بھی ہو۔ ایسی ہی کسی کیفیت کو کسی شاعر نے یوں لکھا تھا
سکندر خوش نہیں ہے لوٹ کر دولت زمانے کی
قلندر دونوں ہاتھوں سے لٹا کر رقص کرتا ہے
تو پھر سکون کیا ہے؟
سکون کا جسم یا ظاہر سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اس کا رشتہ ہمارے اندر سے جڑا ہے، دل کے چین سے وابستہ ہے روح کی تسکین سے متصل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ انسان ظاہری طور پر ان تمام چیزوں سے دور ہو جو آرام مہیا کرتی ہیں مگر پھر حالت سکون میں ہو، میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو گھر کا آرام چھوڑ دیتے ہیں مگر سکون پا لیتے ہیں، بہت آرام حاصل کرنے کے لیے جو دولت کماتے ہیں انھیں جب سکون نہیں ملتا تو وہ اس دولت کو ضرورت مند افراد تک پہنچا کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ (عرفان الحق صاحب سے شکریہ کے ساتھ)
سب سے بڑی مثال ہمارے نبی کی زندگی میں موجود ہے جب سرداران قریش جنابِ ابو طالب کے گھر آۓ اور ان سے کہا کہ اگر آپ کا بھتیجا باز نہ آیا تو ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے اور اس کی مخالفت میں آپ کا بھی لحاظ نہیں کریں گے۔ اب سرداران قریش کی مخالفت کا مطلب تھا کہ ہمارے نبی کو معاشرتی اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنا ہو گا جو کسی بھی انسان کے آرام کا خاتمہ کرتا ہے۔ جب یہی بات جنابِ ابو طالب نے رسول اللہ کو بتائی تو آپ کا جواب یہ تھا
اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیا جائے تو بھی میں اپنا مشن نہیں چھوڑوں گا
غور کریں کتنا سکون ہوگا اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے اور ان کی زندگیاں بہتر بنانے میں جو ہمارے نبی نے اس کے بدلے میں ساری مشکلات مول لے لیں۔ آرام چھوڑ دیا اور سکون کی معراج تک پہنچ گئے۔
انسان کو آرام سے دور کرنے کے لیے سزا کے طور پر جیل بنائی گئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ مشہور افریقی رہنما نیلسن منڈیلا اپنی زندگی کے 27 سال جیل میں گزار کر بھی سکون کی حالت میں رہتے ہیں اور سکون بھی اتنا کہ جب وہ 27 سال بعد جیل سے باہر آتے ہیں تو اگلے تین سالوں میں اپنے خطے کی تقدیر بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ یعنی 27 سالہ جیل کی بے آرامی ان کے سکون کو ذرہ برابر بھی برباد نہیں کر پائی۔
معاشرتی محقق یہ بتاتے ہیں کہ انسان جتنا آرام حاصل کرنے والی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے اتنا ہی اپنے سکون کی مقدار کم کرتا جاتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے جب اس کی زندگی میں آرام دینے والی ساری اشیاء تو موجود ہوتی ہیں اور پھر بھی وہ نہایت بے سکونی کا شکار ہوتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 60 فیصد سے زائد ڈیپریشن کا شکار لوگ دولت مند ہوتے ہیں۔ غریبوں میں اس کی شرح نہایت کم ہے کیونکہ 30 فیصد متوسط طبقہ بھی اس ذہنی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔
بے سکونی کی وجوہات پر تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ مندرجہ ذیل چیزوں کو ترک کر دیا جائے
۔1 زہر بھرنے اور اگلنے والے افراد سے روابط
۔2 صرف آرام کی خاطر پاگل پن کا شکار لوگ
۔3 افراد و حالات کو کوستے رہنے کی عادت
۔4 لوگوں کو متاثر کرنے کی خواہش
۔5 زندگی میں ہر چیز پرفیکٹ چاہنا
بے سکونی کے شکار افراد انھیں چیزوں میں گھرے ہوتے ہیں اور انھیں چیزوں کے حصول سے ہی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل ہو گا اور یوں اس نہ ختم ہونے والے گھن چکر میں ان کی ساری زندگی بیت جاتی ہے۔
اب اگر بے سکونی کی وجوہات واضح ہیں تو سوال یہ ہے کہ سب سے پرسکون کیا شے ہے جس سے اس بے سکونی کو ختم کیا جا سکے؟
قرآن میں اس سوال کے جواب کی تگ و دو کرتے ہوئے سورتہ روم آیت 21 میں ارشاد باری تعالیٰ ملتا ہے کہ
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے ازواج (ساتھی ، ہم خیال) بنائے تاکہ تم ان کی طرف سے آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک ا س میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں
غور کریں اللہ تعالیٰ نے ہم خیال انسان یا انسانوں کو سکون حاصل کرنے کے لیے اپنی نشانی قرار دیا ہے، پورے قرآن کو اٹھا کر دیکھ لیجیے کسی اور نشانی کو باعث سکون قرار نہیں دیا گیا۔ لتسکنو یعنی تم سکون ہی حاصل کرو گے اگر ساتھ چلنے والا ہم خیال بھی ہے کہ وہ بھی سکون کا متمنی ہے نا کہ صرف آرام کا۔ آگے دیکھیے فرماتا ہے کہ اس سکون کی سب سے بڑی دو وجوہات ہوں گی۔
پہلی وجہ اللہ تعالیٰ نے مودت بتائی یعنی آپ ایک دوسرے کے لیے ایسے لازم و ملزوم ہوں جیسے مچھلی پانی کے ساتھ ہوتی ہے، اگر کسی کو آپ کے بغیر رہنے میں دقت نہیں ہوتی تو وہ آپ کا زوج نہیں ہے، ایسا شخص وہ تمام کام کر لے گا جو دو انسانوں کو دور رکھیں یا اس کے پاس وہ تمام جواز ہوں گے جو ساتھ رہنے میں رکاوٹ بنے رہیں پس مودت ایک ایسی شے ہے جو الفاظ سے نکل کر ان تمام اعمال میں ڈھل جائے گی جو دو انسانوں میں قرب کا ذریعہ بن رہے ہوں اور اعمال کی پہچان نہایت آسان ہے بنسبت محض اقوال کے۔
دوسری وجہ رحمت بیان کی گئی جسکا بنیادی مطلب ہے تکلیف، مشکل یا مصیبت سے بچانا، جو ساتھی ہمیں تکلیف و مشکلات سے دور رکھتا ہے، بچاتا ہے، ڈھال بن جاتا ہے، ہماری زندگی میں اور کاموں میں آسانیاں پیدا کرتا ہے وہی رحمت ہے اور اسی کے برعکس وہ شخص ہوگا جو آپ کو آسانیاں دینے کی بجائے آپ کو ہمیشہ الجھا کر رکھے گا تاکہ آپ کو پہچان کے لیے غور وفکر کرنے کا وقت ہی نہ ملے۔
اور ایسا رحمت و مودت کے اصول پر کار فرما انسان ہی باعث سکون ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ نے ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے کہا کہ اگر تم غور و فکر کروگے تو تم مودت و رحمت تلاش کر لو گے کیونکہ یہ دونوں خصوصیات انسان کے عمل سے جھلک رہی ہوتی ہیں اور اگر تم نے یہ چیزیں تلاش کر لیں تو تم سکون پا گئے۔
اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تحریر: حسنین ملک