شعوری نکاح اور جنت الماوی
ایک ضروری نکاح ہوتا ہے
لوگ کہتے ہیں اس کی عمر ہو گئی ہے، نکاح کر دو
اب اس کی نوکری ہو گئی ہے نکاح کر دو
لڑکی یا لڑکا بگڑ نہ جانے یا بگڑ گۓ، نکاح کر دو
کئی والدین کہتے ہیں ہم بوڑھے ہو رہے ہیں، بچوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں تو نکاح کر دو
ان سب کو اور اس طرح کی اور رسومات کو ضروری نکاح کہتے ہیں جس میں کسی نہ کسی سماجی، معاشرتی، معاشی یا جسمانی ضرورت کے تحت نکاح کر دیا جاتا ہے
ایک اور کائنات اس کے بالکل برابر میں چل رہی ہوتی جسے انسان کا شعور کہا جاتا ہے
جہاں انسان اپنے
شعور کی سمجھ
اسکی ترقی
اس کی تشفی و تسلی و تسکین کے لیے
سوچ کے تبادلے
اور اس تبادلے میں اختلاف کے باوجود ایک حسین گفتگو کے لیے
اس حسین گفتگو کے دوران بھی کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے
کسی کی چھوٹی سی کاوش کو تسخیر کائنات بنا کر، نکھار کرپیش کرنے کے لیے
جہاں گھر بنانے کے بجائے دل میں گھر کرنے کے لیے
یا پھر کسی کا ہاتھ تھام کر اس کو ایسا احساس دلانے کے لیے جیسا ایک چھوٹے بچے کو بھیڑ میں اپنی ماں کی انگلی پکڑ کر ہوتا ہے
نہیں تو پھر کسی کے صرف جسم کی حد سے نکل کر اس کے اندر کی خوبصورتی کو نکھارنے کے لیے اور جب نکھر جائے تو اس کی مزید قدر کرنے کے لیے
ایسے نکاح کو شعوری نکاح کہتے ہیں
معاشرے میں بھلے ایسے شعوری میاں بیوی دور دور بستے ہوں مگر وہ ان ضروری نکاح والوں کی بنائی ہوئی احمقوں کی جنت کے بجائے اللّٰہُ کی بنائی ہوئی جنت الماوی میں رہتے ہیں
جنت الماوی سورۃ نجم میں مذکور ہے اور یہ ایسے پر سکون مقام کو کہتے ہیں جہاں شعور بلندی کی طرف مائل ہو
تحریر: حسنین ملک