انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو اپنے بالوں کو رنگ لگاتا ہے وہ اپنی باتوں کو بھی رنگ لگاتا ہے ، اصلی بالوں کو نقلی رنگ لگا کر دکھانے والوں کی اکثریت اصلی باتوں کو بھی نقلی رنگ لگا کر پیش کرتی ہے ۔
سائیکالوجی کا مطالعہ سکھاتا ہے کہ انسان جس بھی عادت، بات یا شخصیت کو 66 دن قائم رکھے وہ اس کے مزاج میں ڈھل جاتی ہے اور ایسی تمام چیزوں کو چھوڑتے وقت انسان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اپنی غلطی پر شرمندہ ہو جانا ایک ایسی خوبی ہے کہ جو انسان شرمندہ ہوتا ہے، شرمندگی کو سمجھتا ہے وہ انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بہتر سمجھتا بھی ہے اور ان کا بہتر خیال بھی رکھ پاتا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ جس شخص سے آپ محبت کرتے ہیں اس کی سب تفصیلات کو آپ کیوں جان پاتے ہیں جیسا کہ اس کے چہرے پر ایک چھوٹا سا دانہ، تل، یا اسکے بالوں میں ایک سفید بال، یا اسکا کوئی زیور، اس کے ہاتھوں پر کوئی نیا نشان ، اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئی تبدیلی ، اس کے لباس میں کچھ نیا ، اس کی آنکھوں کا رنگ، اتنا سب آپ کیسے جانتے ہیں جبکہ باقی انسانوں کو بھی آپ کی نظر دیکھتی ضرور ہے مگر یہ سب تفصیلات نظر انداز ہو جاتی ہیں ، عام طور پر اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ محبت ہے مگر حیران کن طور پر اس کی ایک سائنسی وجہ بھی ہے۔ انسان جب بھی اپنی پسند کی شخصیت کو دیکھتا ہے تو دیکھنے والے کی آنکھیں عام حالت سے 45 فیصد زیادہ کھلتی ہیں ، دیکھنے والے کی پلکیں 45 فیصد سے زائد کے زاویے پر کھل جاتی ہیں یہ تقریبا دو گنا کے برابر ہے پس انسان اپنے پسندیدہ انسان کو دوگنی طاقت سے دیکھتا ہے ۔ یہی وہ وجہ ہے جس سے محبوب کی زیادہ تفصیلات ہمارے دماغ تک رسائی حاصل کرتی ہیں ۔ اور اگر کسی کی نہیں کر رہی تو؟ جواب آپ جانتے ہیں
اور آخر میں بتاتا چلوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جھگڑے یا اختلاف کے وقت آپ کسی انسان کی اچھائیاں نہیں یاد رکھ پاتے اور اس وجہ سے جھگڑے کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور جھگڑا طول اختیار کر لیتا ہے۔ سائیکالوجی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان جب ایک منفی بات یا خیال سنتا یا سوچتا ہے تو ہمارے دماغ سے فوراً 5 مثبت باتیں یا یادیں غائب ہو جاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک منفی خیال کسی مثبت انسان کے بارے میں ہمارے خیالات بدلنے کے لیے کافی رہتا ہے ۔ اس ایک خیال کو تھوڑی سی توجہ سے ہم نگہداشت کر کے جلد ہی بیج سے درخت بنا لیتے ہیں اور پھر یہ درخت پھل دینا شروع کر دیتا ہے اور اس کے پھل سے مزید درخت آگ پڑتےہی اور یوں یہ منفی خیالات کا جنگل انسانی نفسیات کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کردیتا ہے جہاں نہ اسے کچھ اچھا دکھائی دیتا ہے ، نہ سنائی دیتا ہے نہ سمجھ آتا ہے، غالباً اسی درخت کے پاس جانے سے آدم یعنی آدمیت کو منع کیا گیا تھا، یہی وہ مقام ہے جسے قرآن میں جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے
ترجمہ: اُن کے لیے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کے لیے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، اور اُن کے لیے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ، یہ لوگ جانوروں جیسے ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ، یہی لوگ غافل ہیں