Pokhara — A Bouquet of Water
September 16, 2023میں اور میری تنہائی
October 4, 2023
بچے وہ کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں
انسانی نفسیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے۔
سادہ سا کلیہ ہے جسے یاد رکھنا بھی آسان ہے بچے وہ کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں
دوبارہ غور کریں اس جملے پر یہ سادہ سا جملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے
بچے وہ کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں
بچے وہ نہیں کرتے جو آپ انھیں بتاتے ہیں یا سمجھاتے ہیں ۔ اکثر والدین جو اپنے بچوں کو سمجھا سمجھا کر فرسٹریٹ کر چکے ہوتے ہیں وہ مجھے کہتے ذرا ہمارے بچوں کو بھی اچھا سا سمجھا دیں ۔
کر چکے ہوتے ہیں وہ مجھے کہتے ذرا ہمارے بچوں کو بھی اچھا سا سمجھا دیں ۔
پس آپ بچوں کو جو بنانا چاہتے ہیں وہ دکھانا شروع کر دیں ۔ بچے کا سارا دن کہاں گزرنا ہے، اس نے کون کونسی جگہ جانا اور کس کس انسان سے ملنا ہے ، یہ سب ابتدائی 15 سالوں تک والدین کے اختیار میں ہوتا ہے تو اگر آپ کا بچہ کچھ بھی غلط سیکھ رہا یا کچھ بھی ٹھیک نہیں کر رہا تو سمجھ جائیں کہ اس کے 24 گھنٹوں میں کوئی فرد موجود ہے جسے وہ ایسا کرتے دیکھتا ہے۔ آغاز تو والدین سے اور گھر کے ماحول سے ہی ہو جاتا ہے تو آپ اپنی بیوی یا خاوند کے ساتھ کیسے ہیں ، اگر گھر میں کوئی بزرگ رہتا ہے تو ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں ، آپ گھر میں ٹی وی پر کیا دیکھتے ہیں ، بچے موبائل یا کمپیوٹر پر کیا دیکھتے ہیں ،سکول میں اساتذہ کیا کرتے ہیں جب وہ پڑھا نہیں رہے ہوتے ۔ یہ سب مل کر بچوں کا مزاج طے کرتا ہے ۔ اور بچوں کا مزاج والدین کی توجہ اور تربیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔
تربیت کا تعلق کس چیز سے ہے اسے سمجھنے کے لیے نہایت آسان مثال ہے
ہالی وڈ کے ایک بڑے مزاحیہ اداکار نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے ۔
بچپن میں ایک بار میں اپنے والد کے ساتھ سرکس دیکھنے گیا، سرکس کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ہم سے آگے ایک فیملی تھی،جس میں چھ بچے اور ان کے والدین تھے، یہ لوگ دیکھنے میں خستہ حال تھے، ان کے بدن پر پرانے،مگر صاف ستھرے کپڑے تھے، بچے بہت خوش تھے اور سرکس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، جب ان کا نمبر آیا،تو ان کا باپ ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کے دام پوچھے، جب ٹکٹ بیچنے والے نے اسے ٹکٹ کے دام بتائے،تو وہ ہکلاتے ہوئے پیچھے کو مڑا اور اپنی بیوی کے کان میں کچھ کہا،اس کے چہرے سے اضطراب عیاں تھا۔
تبھی میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی جیب سے بیس ڈالر کا نوٹ نکالا، اسے زمین پر پھینکا، پھر جھک کر اسے اٹھایا اور اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:جناب! آپ کے پیسے گر گئے ہیں، لے لیں۔
اشک آلود آنکھوں سے اس شخص نے میرے والد کو دیکھا اور کہا:شکریہ محترم!
جب وہ فیملی اندر داخل ہوگئی، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑ کر قطار سے باہر کھینچ لیا اور ہم واپس ہوگئے؛کیوں کہ میرے والد کے پاس وہی بیس ڈالر تھے، جو انھوں نے اس شخص کو دے دیے ۔
اس دن سے مجھے اپنے والد پر فخر ہے، وہ منظر میری زندگی کا سب سے خوب صورت شو تھا، اس شو سے بھی زیادہ، جو ہم اس دن سرکس میں نہیں دیکھ سکے
اور تبھی سے میرا یہ ماننا ہے کہ تربیت کا تعلق عملی نمونے سے ہے، محض کتابی نظریات سے نہیں
یہ مشہور اداکار چارلی چیپلن تھے۔ چارلی کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ، چارلی وہ پہلا اداکار تھا جسے ٹائم میگزین نے اپنی زینت بنایا ۔ چارلی ایکڑ ہونے کے علاؤہ ایک اچھے میوزیشن اور ایک اعلیٰ کمپوزر بھی تھے۔ چارلی نے خود ایک یتیم خانے میں پروان چڑھنے کے باوجود اتنی محنت کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے پاس امریکہ کے صدر سے زیادہ دولت ہوا کرتی تھی ۔ پوری دنیا کو بغیر بولے ہنسانے والا یہ مسیحا 25 دسمبر 1977 کو سوتے میں پرسکون انداز سے اس دنیا سے چلا گیا ۔
چارلی کی بہت سی باتیں اور اقوال مشہور ہیں ، چارلی اپنے گیارہ بچوں کو ایک پیغام بار بار دیتے تھے اور عملی طور پر بھی زندگی ایسے ہی گذاری:
زندگی میں سادگی حاصل کرنا ایک مشکل ترین کام ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
تحریر: حسنین ملک